• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے ہاں رواج ہی نہیں رہا کہ کوئی عوامی نمائندہ کسی درس گاہ میں جائے، اور عوام کے سوالات کا سامنا کرے، ان کے تسلی بخش جواب دینے کی کوشش کرے۔ ہمارے ہاں تو رواج ہے وی آئی پی کلچر کا، پروٹوکول کی بڑی بڑی گاڑیوں، عوام کو ڈراتی دھمکاتی ہوٹروں والی موٹرسائیکلوں کا۔ ہم نے ہمیشہ ایسے ہی حکمران دیکھے ہیں ۔ کہیں ان کی وجہ سے ٹریفک بند ہے، ایمبولینسوں میں لوگ مر رہے ہیں، کہیں ناکے لگے ہیں تو عوام کی جان عذاب بنی ہے۔ وی آئی پی لوگ عوام کے سوالوں کا جواب دینا تو درکنار عوام سے گفتگو یا ہاتھ ملانے تک کے روادار نہیں۔عوام ہمیں یاد آتے ہیں صرف الیکشن کے موقع پرجب ہم ان کے گھروں میں بھی جاتے ہیں، غریب پرور بھی بن جاتے ہیں، ان کی داد رسی بھی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس سسٹم میں عوام کو نہ سوال کا حق ہوتا ہے نہ وہ جواب کے مستحق ہوتے ہیں۔ سمجھا جاتا ہے کہ عوام کو زندگی کا کوئی شعور ہے نہ کوئی جمہوری حق حاصل ہے۔ بس! بھیڑ بکریوں کا ایک ریوڑ ووٹ ڈالتا ہے اور اپنے بہتر مستقبل کی دعا کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اس ملک میں عوام کی یہی حالت ہے۔وزیر اعظم کے دورہ لمز کے حوالے سے سوشل میڈیا پر قیامت آ چکی ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ لمز کے طلبا نے وزیر اعظم کو پچھاڑ دیا، کوئی رطب اللسان ہے کہ وزیر اعظم نے طلبا کو نیچا دکھا دیا۔

وزیر اعظم کے دورہ لمز کو ایک علمی سیاسی بحث کے طور پر نہیں دیکھا جا رہا، اس پر سانحہ لمز کے ٹرینڈز بن رہے ہیں۔ اگر سوشل میڈیا پر دیکھیں تو لگتا ہے یہ معرکہ خیر و شر تھا جس میں شر کا کردار وزیر اعظم کو سونپا گیا یا پھر یہ کوئی حق و باطل کی جنگ تھی جس میں چند حق پرست طلبا نے باطل کے چھکے چھڑا دیے۔

وزیر اعظم کاکڑ سے میری ملاقات ہوئی ہے۔ میں نے انہیں بہت باعلم اور باشعور شخص کے طور پر جانا ہے۔ وہ بات کرنے کا ہنر بھی جانتے ہیں اور نکتہ آفرینی کے کمال سے بھی واقف ہیں۔ ان کا مطالعہ وسیع ہے اور وہ تاریخی حقائق سے باخبر بھی ہیں۔

اس گفتگو کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ لمز میں وزیر اعظم نے جو کچھ کہا وہ درست ہے یا مکمل طور پر غلط ہے۔ بات کہنے کی مگر یہ ہے کہ ہم میں وہ تحمل جو کسی علمی یا سیاسی موضوع پر گفتگو کیلئے درکار ہوتا ہے وہ مفقود ہو چکا ہے۔ ہم اس قدر جلدی میں ہیں کہ ہمیں واقعے اور اس کے پس منظر سے کوئی غرض نہیں، ہمیں فٹا فٹ نتیجہ درکار ہوتا ہے۔ نتیجہ بھی وہی جو ہماری منشا کے مطابق ہو۔ اگر اس منشا کے برعکس کوئی سچ بھی بولے تو وہ کذاب ہے، مجرم ہے۔

لمز میں وزیر اعظم کی گفتگو کے سوشل میڈیا پر نتائج دیکھنے کے بعد یہ بات سمجھ آئی ہے کہ اب نہ سوال اہم ہے نہ جواب کی کوئی قدر ہے، اب نہ علم مقصد ہے نہ جستجو خواہش ہے۔ اب مفہوم و مقصود دیگر چیزیں ہیں۔اب یہ اہم ہے کہ اس واقعے پر کتنی میمز بنی ہیں، کتنے لطیفے گھڑے جاتے ہیں، کتنی ریلز کو کتنے ویوز ملتے ہیں، کتنے شارٹس بنتے ہیں ۔

یہ لائکس، شیئرز اور ویوز کا زمانہ ہے، یہ وائرل ہونے کا دور ہے۔ اس زمانے میں علم تحمل اور دلیل بے معنی ہیں۔ اس دور میں عقل و دانش حکمت غیر ضروری ہیں۔ اب بس وائرل ہونا اہم ہے۔ اس کیلئے طریقہ کیا اختیار ہوتا ہے اس پر کسی کو سوچنے کی فرصت نہیں۔سوشل میڈیا کے ہنگام و بہتان میں چند سوالات و جوابات نظر سے گزرے۔ ایک سوال ایک طالب علم نے وزیر اعظم کے تاخیر کے آنے کے حوالے سے پوچھا۔ وزیر اعظم نے اس کا جواب دیا ’ میں کابینہ کے اجلاس میں تھا جو اس تقریب سے زیادہ اہم تھا اور دوسرا آپ مجھے پیسے تو نہیں دیتے۔یہ جواب مناسب نہیں تھا نہ ہی یہ وزیر اعظم کی شخصیت اور منصب کے شایان شان تھا۔ دنیا بھر کے سربراہان مملکت نوجوانوں سے ان کے تعلیمی اداروں میں ملتے ہیں مگر کوئی یہ نہیں کہتا کہ آپ نے کون سا مجھے پیسے دیے ہیں یا پھر کوئی ایک منٹ بھی تاخیر سے نہیں پہنچتا۔ اگر یہ اتنا ہی غیر اہم تھا تو وزیر اعظم کو یہاں آنا ہی نہیں چاہیے تھا۔بعض بچوں نے سوال اس لہجے میں پوچھا کہ وہ آئے ہوئے مہمان کی توہین کے مترادف لگا۔ گھر آئے مہمان کی توقیر و تکریم کے سوا ہمارے سماج میں کوئی اور آپشن نہیں ہے۔جس بچے نے اقلیتوں کے حوالےسے قانون سازی کا سوال پوچھا اس بے چارے کو علم ہی نہیں تھا کہ قانون سازی نگران حکومت کا اختیار نہیں ہوتا۔ المیہ یہ ہے کہ کسی طالب علم نے خارجہ پالیسی، افغان امور، نیو ورلڈ آرڈر کے حوالے سے سوال نہیں پوچھا۔یوں لگتا تھا کہ کچے پکے ذہنوں میں جو ’فلسفہ حریت‘ عمران خان ٹھونس گئے ہیں وہی نوجوان نسل کے ذہنوں میں کلبلا رہا ہے۔ وہی جاہلانہ ولولہ جو ہمیں 9 مئی کو نظر آیا اب ہر امیرانہ درس گاہ کا مقدر ہو چکا ہے۔

دوسری بات یہ بھی ہے کہ لمز اور آئی بی اے جیسے ادارے ہماری اصل نوجوان نسل کی ترجمانی نہیں کرتے۔ ہمارا نوجوان کیا سوچ رہا ہے یہ صرف ان دو درس گاہوں کے دورے سے پتہ نہیں چل سکتا۔

دور افتادہ علاقوں میں جو کالجز اور یونیورسٹیز ہیں، ارباب بست و کشاد کو ان کا بھی دورہ کرنا چاہیے تاکہ پتہ چلے کہ متمول گھرانوں کے سوا متوسط گھرانوں کے جوان کیا سوچ رہے ہیں۔ لیکن یہ سچ ہے کہ جس سوچ اور رویے کو ان دو ایلیٹ درسگاہوں میں ترویج دی جا رہی ہے، وہ بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔

یہ ایک خطرناک صورت حال ہے۔ خواہش تو یہی تھی کہ ہماری نوجوان نسل کو جو عقل ہماری عمر میں آنی ہے اس کیلئے ان ذہنوں کو ابھی سے وسیع کرنا چاہیے۔ اس عمر کے تقاضے ضرور ہوتے ہیں مگر اس میں حکمت، دانش اور جمہوری سوچ کو بھی دخل انداز ہونا چاہیے۔ نوجوان نسل کو پتہ ہونا چاہیے کہ حکومت، ریاست اور قانون کے سامنے سرکش نہیں ہونا چاہیے۔ کوئی مقام اطاعت اور تسلیم کا بھی ہوتا ہے۔ کہیں بڑوں کی بات ماننا بھی پڑتی ہے، اور بعض معاملات سوشل میڈیا کے ٹرینڈز سے بھی اہم ہوتے ہیں۔

تازہ ترین