تحریک طالبان اور تحریک انصاف کی جانب سے "یکساں اور مخصوص مقاصد کے تحت" میانوالی ائر بیس پر دہشت گرد حملے کئے گئے،ایک نے سیاسی کارکنوں کا روپ دھارا اور دوسرے گروہ نے دہشتگرد تنظیم کی شکل میں اسے اپنا ہدف بنایا۔ لیکن دونوں کا مقصد پاکستان کی سلامتی کے اداروں کی صلاحیتوں کو چیلنج کرکے پاکستان دشمنوں کو یہ پیغام دینا تھا کہ اس ملک کے سکیورٹی ادارے اپنی اور اپنی سرحدوں کی حفاظت کرنے کے قابل نہیں لیکن 4 نومبر کے دہشت گردوں اور ان کے سہولتکاروں کو معلوم ہوگیا کہ وہ غلط تھے اور انہیں پیشہ ور فوج کا سامنا کرنا پڑا اور 9حملہ آوروں میں کوئی بچ نہیں جاسکا جبکہ 9مئی کے دہشتگرد کیونکہ اپنی سیاسی پارٹی کی چھتری کے نیچے حملہ آور ہوئے تھے جس کی بنیاد پر سیکیورٹی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے نرم رویہ اختیار کیا اور فوری ردعمل ظاہر نہیں کیا جس کا مطلب اس دہشتگرد گروہ نے غلط لیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوں اپنا بیانیہ تبدیل کر دیا اور 9مئی کے واقعہ میں شریک دہشت گروں سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے آپ کو مظلوم سیاسی جماعت کے طور پر دوبارہ میدان سیاست میں اپنی لائینیں سیدھی کرنے لگے اور اپنے دور اقتدار میں سیاسی قیدیوں کو نشان عبرت بنانے اور اپنے سیاسی مخالفین کو "رندہ پھیر کر سیدھا کرنے" والی تحریک انصاف اب اپنے اس لیڈر کے لئے جیل میں محلوں جیسی مراعات اور آسائشیں مانگ رہی ہے جس نے اپنے دور میں سیاسی مخالفین کے سیلوں سے شدید گرمی کے موسم میں بھی پنکھے اتروا دئیے، وہی گروہ تحریک انصاف کے لئے لیول پلینگ فیلڈ کا مطالبہ کر رہا ہے جو خود اخلاقی اور آئینی اقدار کو روندتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر بیٹھ کر اقتدار میں آیا تھا۔
بات چلی تھی ریاست کے خلاف سیاسی جماعت کی جانب سے کی جانے والی دہشتگردی اور ماضی کے نظام عدل کی آئین مخالف اور ایک مخصوص سیاسی پارٹی کے حق میں جانبدارانہ کردار تھا جس نے ملک کی ریاستی رٹ اور آئینی وقار کو نقصان پہنچایا اور خود ساختہ اور من پسند فیصلوں کے ذریعے قانون سازی کا آئینی کےاختیارات پارلیمنٹ سے ایوان عدل میں منتقل کردیئے گئے۔جو رفتہ رفتہ بحال ہو کراپنے اپنے ایوانوں میں واپسی کے راستے پر ہیں-
9 مئی کی دہشتگردی میں ملوث تحریک انصاف کے کارکنوں، جن سے عمران خان سمیت پارٹی کی مرکزی قیادت نے اظہار لاتعلقی کردیا تھا، اسی ائر بیس پر حملہ کیا لیکن انہیں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور وہائر بیس کی حدود میں داخل ہونے میں ناکام ہوئے تاہم انہوں نے ریاست کی سلامتی کے ادارے کے خلاف نفرت کا اظہار قریبی چوک میں نصب جنگی جہاز پر حملہ کر کے نقصان کیا اور اسے آگ لگادی تاہم قانون نافذ کرنے والے اداروں نے وقتی درگزر سے کام لیا اور کسی جانی نقصان سے بچنے کے لئے ردعمل اظہار نہیں کیا جبکہ 4نومبر کو اسی ائر بیس پر دہشتگردی کرنے والوں کے خلاف پیشہ ورانہ طور پر حملہ ناکام بناتے ہوئے امریکی اسلحہ سے لیس تمام دہشتگردوں کو ہلاک کردیا-
تحریک طالبان کے مقابلے میں تحریک انصاف کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے موثر ردعمل ظاہر کرنے میں تاخیر کے نتیجے میں ریاست کے خلاف دہشتگردی کے نظریہ پر یقین رکھنے والے گروہ کی حوصلہ افزا ئی ہوئی اور انہوں نے ماضی کے عدل کے ایوانوں کی سہولت کاری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خود کومظلوم ظاہر کرکے عدالتوں سے رجوع کرنا شروع کردیا اور اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ وہ ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف دہشتگردی کے جرائم کو درست عوامی ردعمل قرار دلانے میں کسی حد کامیاب ہو کر ریاست کے خلاف اپنا مشن مکمل کرنے کے لئے دوبارہ قومی دھارے میں واپس آنے کے لئے تیار ہیں- حالانکہ عمران خان کی منفی سیاست پر تنقیدکرنے والے تجزیہ کار دہشت گردی کی حالیہ لہر کا ذمہ دار عمران خان کو قرار دے رہے ہیں جن کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی ماضی کی حکومت کے دوران عمران خان کے حکم پر 42 ہزار دہشت گردوں جن میں 7ہزار باقاعدہ تربیت یافتہ دہشت گرد شامل تھے، کو جیلوں سے نکال کر پاکستان کے مختلف عالاقوں میں آباد کیا گیا تھا، امن و امان برباد کرنے کے علاوہ 9 مئی کی بغاوت میں ریاستی اداروں کے خلاف استعمال کیا گیا لیکن نظام عدل کی نظرمیں عمران خان نے کوئی گناہ نہیں کیا جبکہ ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نوازشریف ناکردہ گناہوں پر سزاوار ٹھہرے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)