دہشت گردی صراط مستقیم سے بھٹکے ہوئے ان گمراہ عناصر کی غلط سوچ کا نتیجہ ہے جنہیں اسلامی احکامات کے منافی باور کرایا گیا ہے کہ خودکش حملوں میں مارے جانے کی صورت وہ سیدھے جنت میں جائیں گے۔ ان کی تربیت بھی اسی باطل عقیدے کے مطابق کی جاتی ہے۔ دہشت گرد تنظیموں کی کارروائیا ں کئی سال سے جاری ہیں جن میں کم و بیش ہزاروں دہشت گرد واصل جہنم ہو چکے ہیں پھربھی یہ سلسلہ رکنے میں نہیں آ رہا۔ پاکستان طویل عرصے سے ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہے۔ مسلح افواج نے آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد کے ذریعے دہشت گردی پر بڑی حد تک قابو پا لیا تھا مگر افغانستان میں پناہ لینے والے بچے کچھے تخریبی عناصر نے ایک بار پھر صف بندی کر لی ہے اورسرحد پار سے صوبہ خیبرپختونخوا، بلوچستان اور پنجاب میں خودکش حملے شروع کر دئیے ہیں، مختلف مکاتب فکر کے تقریباً دو سو علماء کرام نے ان کے اس فعل بد کے بارے میں متفقہ فتویٰ جاری کیا ہے جس کی اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی توثیق کر دی ہے اور اسے رائے عامہ کی رہنمائی کیلئے جاری کیا ہے، فتوے کی رو سے خودکش حملوں کو اسلامی تعلیمات اور شریعت کے مطابق حرام اور دہشت گردوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا گیا ہے۔ علماء کرام کے فتوے کو پیغام پاکستان کا نام دیا گیا جو ایک ضابطہ اخلاق کا مجموعہ ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ حکومت، فوج اور سکیورٹی اداروں کو غیر مسلم قرار دینا اسلامی احکامات کے منافی اور بغاوت کے مترادف ہے۔ اسلام میں کسی فرد، مسلک یا ادارے کے خلاف نفرت انگیز تقریر کی ممانعت ہے۔ کوئی عالم دین کسی کو غیر مومن قرار نہیں دے سکتا۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے ملک میں اتحاد، رواداری اور ہم آہنگی کیلئے یہ ضابطہ اخلاق جاری کیا ہے۔ یہ قرآن پاک کے احکامات، سنت رسولﷺ اور آئین پاکستان کے مطابق ایک متفقہ دستاویز ہے جو ریاستی اداروں، یونیورسٹیوں اور تمام مسالک کے تعاون سے تیار کی گئی ۔ اس میں ریاستی اداروں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ایسے گروہوں اوراداروں کے خلاف جو عسکریت پسندی، نفرت، انتہا پسندی اور تشدد میں ملوث ہو یا تربیت دے کارروائی کریں۔ یہ بھی کہا گیا کہ ہر مسلک اور مکتبہ فکر کو تبلیغ کی آزادی حاصل ہے۔ کوئی عالم دین کسی کو غیر مومن قرار نہیں دے گا۔ یہ عدالت کا دائرہ اختیار ہے۔ پاکستان کی سرزمین دہشت گردی کیلئے استعمال نہیں کی جائے گی۔ اقلیتوں کو مسلمانوں کی طرح حقوق حاصل ہیں، انہیں اپنے مذہب کی تعلیم کے مطابق عبادت کی آزادی حاصل ہے۔ لائوڈ سپیکر، ٹی وی چینلز وغیرہ پر نفرت انگیز تقاریر کی حوصلہ شکنی ہونی چاہئے۔ علماء کرام نے انسانی اقداراور اسلامی اخوت پر مبنی اسلامی اداروں کے قیام کو وقت کی ضرورت قرار دیا اور کہا کہ وہ سب مسلح افواج کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ فتویٰ ایسے وقت میں جاری کیا گیا جب ملک دہشت گردی کی نئی لہر سے دوچار ہے۔ مسلح افواج پولیس لیویز اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے اداروں کے جوان اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کیلئے جانوں کی بیش بہا قربانیاں دے رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پیغام پاکستان کی صورت میں جاری ہونے والے اس فتوے کی وسیع پیمانے پر تشہیر کی جائے اور تعلیمی اداروں ، مدرسوں کے نصاب اور مساجد کے خطبوں میں اسے شامل کیا جائے۔اسلامی تاریخ میں اس سے پہلے بھی دہشت گردی مختلف شکلوں میں ہوتی رہی ہے۔ فتنہ خوارج اور حسن بن صباح کے قلعہ الموت میں مصنوعی جنت اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں جنہیں امت مسلمہ نے مسترد کیا ہے۔خودکش حملے اس کی جدید شکل ہیں جن کا خاتمہ ناگزیر ہے۔