• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ سطور میں چین کے سیاحتی اور صنعتی صوبے یونان کے دارالحکومت کنمنگ میں بیٹھ کر سپرد قلم کررہا ہوں۔ یہاں کمیونسٹ پارٹی آف چائنا(CPC) کے زیراہتمام بیلٹ اینڈ روڈ اینی شیٹو (BRI)سے متعلق جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے سیاستدانوں کی کانفرنس

Sharing the outcome of the Belt and road forum for international cooperation

کے زیرعنوان منعقد ہورہی ہے۔ درجنوں ممالک کےسیاسی اور حکومتی نمائندے اس میں شریک ہیں۔ پاکستان کی نمائندگی سینیٹر مشاہد حسین سید ، احسن اقبال، عادل شاہزیب اور راقم الحروف کررہے ہیں۔

چینیوں کی فراخدلی یا ہوشیاری کا اندازہ اس سے لگا لیجئے کہ اس کانفرنس میں ہندوستان سے بھی دو نمائندے شریک ہیں۔ یہ کانفرنس اس بات کا ثبوت ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ اینی شیٹو یعنی بی آر آئی سے متعلق چینی قیادت مزید صرف حکومتوں پر انحصار نہیں کر رہی بلکہ وہ اس پروجیکٹ کے حصہ دار ڈیڑھ سو سے زائد ممالک کی سیاسی جماعتوں ، تھنک ٹینکس اور میڈیا تک بھی رسائی کی کوشش کررہی ہے تاکہ اس سے متعلق مغرب کے پھیلائے ہوئے شکوک و شبہات کو دور کر سکے۔ کانفرنس کے میزبان اور چینی کمیونسٹ پارٹی کی سنٹرل کمیٹی انٹرنیشنل ڈیپارٹمنٹ کے منسٹر لیو جیان چاو (Liu Jianchao) نے اپنے خطاب میں کہا کہ بی آر آئی کا ہدف انتشار نہیں اتفاق ہے، عدم تعاون نہیں بلکہ ممبر ممالک کے مابین تعاون ہے۔ بندشیں نہیں بلکہ کھلا پن ہے اور بدامن نہیں بلکہ عالمی امن کا حصول ہے ۔ انہوں نے کہا کہ چین چاہتا ہے کہ کوئی بھی ملک بی آر آئی سے مستفید ہوئے بغیر نہ رہے۔

اس منصوبے کے جو آٹھ اہداف ہیں ان میں سولیڈیرٹی اوور ڈویژن (Solidarity over division) اور کوآپریشن اوور کنفرنٹیشن (Cooperation over Confrontation) کو خصوصی اہمیت حاصل ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں سرد جنگ کی نفسیات کو ترک کرنا ہوگا اور باہمی تعاون کیلئے نئی سوچ اپنانی ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم تاریخ کی دائیں سمت میں ہیں۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ چین دہائیوں نہیں بلکہ مہینوں کے حساب سے بدل رہا ہے۔ میں چند سال بعد چین آیا ہوں لیکن بیجنگ کو بالکل بدلا ہوا پایا ۔ چین کی تیز رفتار ترقی حیران کن ہے اور یہ ترقی ہمہ گیر ہے ۔ یونیورسٹیوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے اور اس میں غیرملکی طلبہ کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے ۔ مثلاً یونان یونیورسٹی ،جس کا ہمیں دورہ کرایا گیا، میں سو سے زائدطلبہ جن میں پاکستانی بھی شامل ہیں، زیرتعلیم ہیں۔ اسی طرح یہ ترقی صرف شہروں تک محدود نہیں بلکہ دیہات کی ترقی بھی قابل دید ہے۔ ہمیں یونان کے ایک گائوں کا دورہ کرایا گیا اور یہ دیکھ کرہماری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ وہاں عوام کو جو سہولیات فراہم کی گئی ہیں، وہ ہمارے ہاں اسلام آباد کے شہریوں کو بھی میسر نہیں۔

صنعت، سائنس اور خلا کے علاوہ زراعت کی طرف چینی قیادت کی توجہ اور ایجادات کا بھی کوئی ثانی نہیں ۔ اس کا اندازہ اس سے لگا لیجئے کہ یونان یونیورسٹی میں ہمیں اس صوبے کی زرعی ترقی سے متعلق جو ویڈیو دکھائی گئی اس میں دکھایا گیا تھا کہ چاول کا ایک ایسابیج تیار کیا گیاہے کہ اسے ایک بار زمین میں بویا جاتا ہے اور پھر اس سے آٹھ فصلیں حاصل کی جاتی ہیں۔ اسی طرح چین کو کل تک ماحولیاتی آلودگی کا بڑا ذمہ دار قرار دیا جاتا تھا لیکن آج خود چین نے اپنے شہروں اور دیہات کو آلودگی سے تقریباً پاک کردیا ہے۔

مذہب اور سیاست کو چھوڑ کر چین باقی ہر حوالے سے ہمارے لئے قابل تقلید ہے۔ ہم پاکستانی بولتے زیادہ ہیں لیکن کام کم کرتے جبکہ چینی بولتے کم اور کرتے زیادہ ہیں۔ ہر چینی سمجھتا ہے کہ امریکہ اس کا دشمن اور انڈیا چین کے تناظر میں امریکہ کا مہرہ ہے لیکن ان دونوں ممالک کے ساتھ چین کی تجارت حسب معمول زوروں پر ہے۔

اگرچہ اس حوالے سے چین کا پلہ بھاری ہے لیکن اس کے ہر شہر میں امریکی کمپنیوں کے اسٹورز دکھائی دیتے ہیں۔ کاش ہم سمندر سے گہری اور ہمالیہ سے بلند دوستی کے فقرے کی تکرار پر اکتفا کرنے کی بجائے مذکورہ حوالوں سے چین کے نقش قدم پر چل سکیں۔

تازہ ترین