آئیے دیکھتے ہیں کہ اگر سندھ کے جنرل الیکشنز کے نتائج ماضی کی طرح ،اس بار بھی پلیٹ میں سجا کے پیپلز پارٹی کو دے دیے گئے تو اس کے اسٹرٹیجک، سیاسی، سماجی، اقتصادی اور معاشی نتائج کیا نکلیں گے؟
1. سندھ کےتعلیمیافتہ لوگوں کی اکثریت کی جانب سے یہ سمجھا جائے گا کہ پیپلز پارٹی کے ہاتھوں سندھ میں پندرہ سالہ کرپشن، لوٹ مار، تباہی، غربت، افلاس، بیروزگاری اور بدترین گورننس کے سسٹم کی اس ریاست، پارلیمان، وفاق، اداروں، عدلیہ اور ای سی پی کو کوئی فکر نہیں، وہ یا تو مکمل لاتعلق ہیںیا بذات خود پیپلز پار ٹی کے سہولت کار اور شیئر ہولڈرز ہیں۔
2. سندھ کے لوگ سمجھیں گے کہ صرف پنجاب کی اندرونی سیاسی لڑائی، ن لیگ اور پی ٹی آئی مقابلے اور پنجاب اور کے پی کی نشستوں کی تعداد ہی وفاق اور ریاست کیلئےمعنی رکھتی ہے، سندھ دراصل ملکی سیاسی ایجنڈے کا 15 سال سے حصہ ہی نہیں ہے۔
3. سندھ کے عام لوگوں، دیگر سیاسی جماعتوں، اتحادوں، قوم پرست اور مذہبی جماعتوں سے جڑے لوگوں تک یہ پیغام جائیگا کہ، سندھ میں صرف دو ہی آپشنز ہیں یا پیپلز پارٹی میں شامل ہوجائیں یا پاکستان کی وفاقی سیاست سی مکمل لاتعلقی کرکے کوئی اور راستہ اختیار کرلیں۔
4. نیب، ایف آئی اے،اینٹی کرپشن، نگران حکومتوں، اداروں اور عدلیہ کے جھکائو کی وجہ سے کسی بھی کرپٹ وزیر، افسر یا اسمبلی ممبر کو کوئی سزا نہ ملنے سے، لوگ سمجھ چکے ہیں کہ کرپشن کے خلاف بیانات اور اعلانات صرف دکھا وا ہیں، پیپلز پارٹی کی کرپشن سے کسی کو کوئی مسئلہ، کوئی شکایت نہیں۔ کچھ لوگ یہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ سندھ کو معاشی طور پر مکمل تباہ و برباد کرنا ہی درحقیقت اصل منشا ہے۔
5. سمجھا جائے کہ پاکستان بحیثیت ایک ملک کے مکمل طور پر اپنے ایک اہم حصے سندھ کی ترقی، گورننس ، خوشحالی، میرٹ اور شفافیت سے لاتعلق ہے۔
6. یہ تاثر عام ہوجائیگا کہ گزشتہ پندرہ سال سے الیکشنز قریب آتے ہی، دکھاوے کیلئے چند ماہ سیاسی جوڑ توڑ کرنے کے بعد، آخری لمحوں میں، اچـھی آفر ملنے پر ڈیل اورسودا ہمیشہ پیپلز پارٹی سے ہی کرلیا جاتا ہے، اس لیے سندھ سطح کی سیاسی پیشقدمیوں، اتحادوں، سیٹ ایڈجسٹمنٹس اور سرگرمیوں کی اور وفاقی سیاست کرنے کی کوئی افادیت نہیں ہے۔
7. بیوروکریسی، عدلیہ، وڈیروں، صنعت کاروں اور سول سوسائٹی کو یہ صاف میسج جائے گا کہ سندھ میں اگر رہنا ہے تو ’جیئے زرداری‘ کہنا ہے، اور پیپلز پارٹی کے سب جائز و ناجائز کام مسلسل کرتے رہنا ہے، کیونکہ سندھ کے حقيقی مطلق العنان بادشاہ وہی ہیں۔
8. بین الاقوامی طاقتوں، پڑوسی ممالک اور عالمی اداروں کو یہ واضح اور کلیئر میسیج جائے گا کہ باقی تینوں صوبوں میں تو کوئی نہ کوئی تبدیلی آتی رہے گی، مگر سندھ کے حکمران وہی کے وہی رہیں گے، اس لیے ہر حال میں اور ہر شرط پر پیپلز پارٹی کے ساتھ تعلقات بہتر رکھے جائیں۔
9. نواز لیگ اور پی ٹی آئی کی ماضی کی حکومتوںکے دوران سندھ سے مکمل لاتعلقی اور پیپلز پارٹی کی خوشنودی کیلئے مستقل چشم براہ ہونے سے یہ پیغام دیا جا چکا ہے کہ ان کے اقتدار اور کابینائوں کی فیصلہ سازی اور مشاورت میں اور ترقیاتی منصوبوں میں سندھ کے عوام کی خواہشات، خدشے اور سندھ کی ترقی اور گورننس کوئی معنیٰ نہیں رکھتی، وہ صرف چند وڈیروں یا الیکٹیبلز میں دکھاوےکیلئے عارضی دلچسپی ليکر پھر سندھ کو پیپلز پارٹی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔
10. سندھ کا بیروزگاری، اقربا پروری، مہنگائی، انتہاپسندی، دہشت گری اور غربت کا مارا ہوا برباد نوجوان، بنگالیوں کی طرح یہ سمجھنے پر مجبور ہو جائیگا کہ سندھ میں میرٹ، روزگار، تعلیم، امن، برابری کی اب کوئی امید نہیں۔
11. سندھ کے الیکٹیبلز جن کو اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کبھی پیپلز پارٹی، کبھی پی ٹی آئی اور کبھی نون لیگ میں شمولیت کے اشارے دیے جاتے ہیں، وہ اس نتیجہ پر پہنچ جائیں گے کہ کرپشن کے ذریعےکھرب پتی بننے کا سب سے مفید اور آسان راستہ پیپلز پارٹی میں شامل ہونا ہے۔
12. سندھ کی دیہی نشستیں حسب دستور پیپلز پارٹی سے جڑے جاگیرداروں، پیروں، وڈیروں اور سرداروں کے حوالے کردی جائیں گی، سندھ کے دارالحکومت اور پاکستان کے سب سے بڑے کاروباری مرکز کراچی کے نتائج میں جس طرح 2018 کے الیکشنز میں انجینئرنگ کرکے مخصوص لوگوں کو جتوایا گیا، اس دفعہ کسی اور کو جتوا دیا جائے گا، مگر کراچی کے مسائل جوں کے توں رہیں گے۔
13. سندھ کے مڈل کلاس کی وفاقی سیاست کرنے والی جماعتوں کی قیادت کو اور مسلسل الیکشنز لڑنے اور دھاندلیوں سے ہرا دیےجانے والے صاف، شفاف، قابل اور میرٹ پر آنیوالے امیدواروں کو یہ پیغام دے دیا جائے گا، کہ آپ جیسے باصلاحيت اور ايماندارلوگوں کیلئے سندھ اسمبلی اور وفاقی پارلیمان میں کوئی جگہ نہیں، یہ ایوان صرف پندرہ نہیں بلکہ پچیس تیس سال تک کیلئے صرف پیپلز پارٹی کیلئے مخصوص کردیے گئے ہیں۔
14.خواتین،بچوں،کسانوں،مزدوروں،اقلیتوں، نچلے متوسط طبقے اور ملازمت پیشہ افراد کی گزشتہ پندرہ سال سے سندھ میں جو درگت بنائی گئی ہے، انکے وسائل کو جس طرح لوٹا گیا ہے، سرکاری محکموں کو جس طرح کرپشن، سفارش، لوٹ مار اور اقرباپروری کے مراکز بنا دیا گیا ہے، اس سے معاشرے کے یہ کمزور طبقات ملکی حالات سے مکمل طور پر مایوس اور لاتعلق ہوجائیں گے۔