بڑا آدمی جہاں اپنی خوبیوں کے سبب مشہور اور قبول والا مقبول ہوتا ہے وہاں اس کے اوپر خواہشات کے علاوہ خدشات اور توقعات کے بادل بھی منڈلاتے رہتے ہیں۔ ایسے میں احتیاط کے دامن کو چھوڑنے سے، اور کچھ ہو نہ ہو نظر ضرور لگ جاتی ہے، ایسی صورت میں خواص کے نڈر اور ڈرپوک دونوں قسم کے دوستوں کو بزرگوں کی اس بات پر دھیان دینا چاہئے کہ احتیاط علاج سے بہتر ہے!
یہاں ہر دوسرا دوست کہہ رہا میاں نواز شریف کو ’’پروٹوکول‘‘ملنا شروع ہو گیا۔ ہم دوستوں کی یہ ادا سمجھنے سے بھی قاصر ہیں کہ وہ شکایت کنندہ ہیں یا تصدیق کنندہ ؟ لیکن تاثر کا سبب بننے یا تاثر دینے والوں کو اتنا ضرور کہیں گے: ’’اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت.... دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ’’ایسی باتوں کے وائرل یا وائرس ہونے سے ہمیںفرق نہیں پڑتا کہ ہم قوتِ مدافعت کے حامل ہیں، اگر واقعی ایسا ہے تو انتخابی صحت کیلئے یہ مضر ہوگا۔ بہرحال اس تاثر کو ختم ہونا چاہئے کہ یہ معاملہ نہ صرف انتخابی وقار بلکہ جمہوری وقار کا بھی ہے۔ اگرچہ ہماری اسٹیبلشمنٹ اپنی ادا اور مہارت میں معاملات کو ایسا مائیکرو رکھتی ہے کہ عام آنکھ کبھی نہ بھانپ پائے، آج ماجرا کیا ہے کہ مائیکرو نیوکلئس یوں میگا لگے ؟ اجی، غورضروری ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کا کام جمہوریت کے بت میں روح ڈالنا ہے کہ گلشن کا کاروبار چلے مگر مقتدری علوم کبھی ایسے نہیں ہوئے کہ ہر دماغ سمجھ لے۔ پلیٹ لیٹس سے لے کر فیکٹس تک کا معاملہ کیا تھا، تقریباً 4 سال کی جلاوطنی اور علاج کیا تھا اور اس میںخان و نواز کے کردار کیا کیا تھے، اور زرداری کو ان سب معاملات سے کیسے دور رکھا گیا، ایسے سب راز و نیاز اب اوپن سیکرٹ ہیں لہٰذا شعور کی آنکھ میں دھول نہ جھونکی جائے۔ انتخابات سے قبل آنکھ مچولیوں کو پسِ پشت ڈال کر سب سیاسی اسٹیک ہولڈرز کو بٹھانا اور قابلِ قبول جمہوریت کیلئے ہموار راستہ تلاش کرنا اہم ریاستی ضرورت ہے۔ معیشت کی زبوں حالی جس قدر خراب ،ایسے میں میں جمہوری وقار اور انتخابی افتخار کو سبوتاژ کرنا قومی سانحہ کو آواز دے گا۔ خدشہ ہے ایک دوسرے سے کھیلتے کھیلتے ہم کہیں ریاست سے نہ کھیل جائیں!
اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے بار ہا احتیاط کے دامن کو فوقیت نہیں دی، ان کی بڑی سیاسی غلطی تحریک عدمِ اعتماد کا جمہوری انداز میں مقابلہ کرنے کے بجائے سائفرکارڈ کھیلنا تھا، ان کی خوش قسمتی تھی اور ہے کہ ان کے حامیوں نے ان کی کئی سیاسی غلطیوں اور جھوٹ کو نظر انداز کیا تھا اور اب بھی فراموش کر رہے ہیں، اس کے باوجود پرستاروں کی بخشی ہوئی حددرجہ پسندیدگی کا احترام نہ کیا گیا، اور خوش فہمی کے عالم میں کے پی کے اور پنجاب اسمبلیاں بھی ایسی توڑیں کہ ملک آئینی بحران کے دہانے پر لا کھڑا کیا، حتیٰ کہ احتیاط کے فقدان نے 9 مئی کا سانحہ برپا کردیا۔ اور آخر پرستار بھی جمہوری و سیاسی بے دست و پا ئی کا شکار ہو کر رہ گئے۔ علم کے ساتھ حکمت کا ہونا بہت ضروری تھا مگر خان مقبولیت کے زعم میں کئی محاذوں پر کمزور ہوگئے پھر لیڈر کی اس غلطی کو جمہوریت، ریاست اور معیشت نے بھی بھگتا۔ بہر حال اس غلطی در غلطی کو رواج نہ بخشنا اب ساری سیاسی قوتوں کا فرض ہے۔ اس موقع پر سیاسی اکابر اور مقتدرہ کے مردم شناس جوڑ توڑ کے بجائے جمہوری و ریاستی بناؤ کو تراش کر ایک نئے دور کا آغاز کریں جس کے لیے مصدقہ اور میرٹ پر لیول پلینگ فیلڈ کی ضرورت ہے۔ امیدواران کو پارٹی اور آزاد امیدواران کی حیثیت سے الیکشن لڑنے کا جائز اور آئینی راستہ میسر ہوگا تو انتخابی عمل پروقار ہوگا۔
کہیں ایم کیو ایم، کہیں جی ڈی اے یا کسی آئی پی پی اور تحریک انصاف حقیقی کو آلہ کار نہ بنایا جائے۔ کُھلا اور اصولی مقابلہ فروغ پائے گا تو سب کا بھرم رہے گا بصورتِ دیگر جعلی لگے گا۔ ان دنوں پیپلزپارٹی اگر تحریک انصاف کے لیے لیول پلینگ فیلڈ کا تقاضا کر رہی ہے تو یہ پیپلزپارٹی کا بڑا پن ہے ورنہ خان کا پیپلزپارٹی سے برتاؤ کسے یاد نہیں؟ جیت اور ہار تو ووٹ کی بنیاد پر ہے لیکن بےتُکی و بےاصولی باتوں سے اپنے کردار کو تو اپنے ہاتھوں سے شکست قبل از انتخابات ہی دے دینا کہاں کی دانشمندی ہے؟
ان سب چیزوں کو اکٹھا کر کے دیکھیں تو دل میں یہ خیال بھی آتا ہے میاں نواز شریف جیسی معتبر سیاست کو آخر ضرورت بھی کیا ہے وہ اسٹیبلشمنٹ کے سامنے کشکول ہی رکھے، جو ہو گیا سو ہوگیا، میدان میں اترنے کے لیے جو ایکسرسائز درکار تھی اس حد تک تو کرلیا جو کرنا تھا لیکن کم از کم اس وقت تو میثاقِ جمہوریت سی اداؤں اور وفاؤں کو پیوندِ خاک کرنا نوازشریف کو زیب نہیں دیتا۔ یہ درست ہے کہ سیاسی قوتوں کی اس دوڑ میں مقتدر ہ بھی ایک قوت ہی کی طرح دوڑتی ہے سو ٹھنڈے دل سے عمران خان، آصف زرداری اور میاں نواز شریف جیسے سیاسی بُرج یہ بھی سوچیں کہ اس دوڑ کے لیے آپ سب راستہ ہموار ہی نہیں کرتے بلکہ اٹھاکر نہیں دوڑتے؟ یہی عالم تو ٹریک سے جمہوریت کو پرے کر تا اور فاؤل پلے لاتا ہے۔
روحِ رواں عدم اعتماد، قبلہ زرداری سے سوال ہے: پی ڈی ایم حکومت میں آئے، شہباز شریف کو بھی لائے تاہم انتخابی حصول کے لیے خود کیا پایا ؟ نون اور مولانا کے لیے تو آج گورنر جلوہ افروز ہیں تبھی تو سرکار گورنر ہاؤس میں پروٹوکول اور پارٹی میٹنگ کی سہولت بھی انجوائے کرلیتے ہیں مگر آپ کہاں کھڑے ہیں، گورنری بھی ایم کیو ایم کو عنایت کرکے کیا تیر مارا؟ ایم کیو ایم، جی ڈی اے، مولانا اور آپ کے ہم نوا بلوچ بھی نواز شریف کی طرف گئے، تو میاں جی کا نامزد وزیراعظم کا تاثر نہ اُبھرے تو کیا اُبھرے؟