سابق وزیراعظم نواز شریف کی وطن واپسی کے بعد مسلم لیگ ن میں نئی جان پڑگئی ہے۔عوامی رائے کا کوئی بھی سروے اٹھا کر دیکھ لیں ،مسلم لیگ ن کی پوزیشن کافی بہتر ہوئی ہے۔وزارت عظمیٰ کا ہما نواز شریف کے سر پر بیٹھتا ہوا نظر آرہا ہے مگر اس سے پہلے 8فروری کو الیکشن میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنا ایک بڑا چیلنج ہوگا۔اس مرتبہ مسلم لیگ ن کو پنجاب میں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ایک بھی غلطی اقتدار کو کوسوں دور لے جاسکتی ہے۔اس وقت مسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف کیلئے سب سے بڑا چیلنج اچھے امیدواروں کا چناؤ ہوگا۔اگر ٹکٹوں کی تقسیم میں کسی بھی قسم کی رعایت برتی گئی تو مسلم لیگ ن کو اس کا ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔مسلم لیگ ن کی قیادت کو عام انتخابات کیلئے ٹکٹوں کی تقسیم میں میرٹ کے دو پیمانے رکھنا ہونگے۔قابل بھروسہ ہونا شرط اول ہے جبکہ آپکا امیدوار ریس میں دوڑنےکیلئے ہر حوالے سے موزوں ہو۔پارٹی ٹکٹ سے ہٹ کر بھی امیدوار کا ذاتی وزن جانچ کر اسے ٹکٹ دینا ہوگا،وگرنہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنا مشکل ہوجائے گا۔ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے میں میاں نوازشریف کو تمام اہم فیصلے اپنی نگرانی میں کرنا ہونگے۔اس وقت موسمی سیاستدان رائیونڈ اور ماڈل ٹاؤن کی منڈیروں پر منڈلارہے ہیں۔ایسے سیاستدانوں کا رش لگنا شروع ہوگیا ہے ،جنہیں خود بھی یاد نہیں کہ انہوں نے آخری الیکشن کس جماعت کے ٹکٹ پر لڑا تھا۔مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کیلئے کوشش کرنے والے ایسے سیاستدانوں کی سفارشیں بھی کافی تگڑی ہونگی ،ممکن ہے مسلم لیگ ن کے صف اول کے رہنما انہیں ٹکٹس دینے کے حامی ہوں۔ مگر میاں نوازشریف کو ساری صورتحال کا ذاتی طور پر انتہائی باریک بینی سے جائزہ لینا ہوگا۔مسلم لیگ ن کے قائد کو اس دشت کی خاک چھانتے ہوئے تقریباً چالیس سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔پنجاب کی انتخابی سیاست پر وہ انتہائی عبور رکھتے ہیں۔ہر حلقے کی سیاست سے بخوبی واقف ہیں۔اس وقت ملک میں کوئی ایسا سیاستدان نہیں ،جو نوازشریف سے زیادہ تجربہ کار ہو۔پنجاب چونکہ مسلم لیگ ن کا ہوم گراؤنڈ ہے۔اس لئے اپنے ہوم گراؤنڈ پر اپنے کراؤڈکے سامنے کیسے کھیلنا ہے،نوازشریف سے بہتر کوئی نہیںسمجھ سکتا۔ چونکہ پنجاب کے مینڈیٹ نے ہی وزیراعظم کا فیصلہ کرنا ہے چنانچہ پنجاب پورے ملک کی سیاست کا محور بنا ہوا ہے۔جو جماعت بھی پنجاب میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگی،مرکزی حکومت اسی کے حصے میں آئے گی۔اس لئے پنجاب کے انتخابی حلقوں میں ہی اصل سیاسی لڑائی لڑی جانی ہے۔مسلم لیگ ن کی قیادت کو ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے تشکیل دئیے جانے والے پارلیمانی بورڈ کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرنا ہوگا اور یہ یقینی بنانا ہوگا کہ ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے تمام بورڈ ممبران تحریری طور پر اپنی رائے پارٹی قیادت کو پیش کریں اور عا م انتخابات کے بعد پارلیمانی بورڈ کے ممبران کی وہی رائے سامنے رکھ کر ان کی وزارتوں اور مستقبل کا فیصلہ کیا جانا چاہئے۔تاکہ پارلیمانی بورڈ کا کوئی بھی ممبر کسی بھی فیصلے میں جانبداری سے کام نہ لےاور اگر وہ کسی غلط امیدوار کو ٹکٹ دینے کے حوالے سے جان بوجھ کر غلط رائے پارٹی کو دے تو اسے پتہ ہو کہ اگر یہ امیدوار ہار گیا یا جیتنے کے بعد پارٹی پالیسی کی پابندی میں ناکام رہا تو اس کے ساتھ ساتھ میرا اپنا بھی سیاسی مستقبل داؤ پر لگے گا اور مجھے وزارت سمیت کوئی بھی اہم ذمہ داری نہ ملے گی بلکہ میری تحریری رائے ہمیشہ میرا پیچھا کرتی رہے گی۔ میاں نوازشریف کو پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے ایک پیمانہ خود مقرر کر نا ہوگا۔ایسے کسی بھی شخص کو پارٹی ٹکٹ نہ دیں ،جو عثمان بزدار اور عمران خان کی کابینہ کا حصہ رہا ہو،کیونکہ ایساکرنے سے مسلم لیگ ن کے اصولی موقف کو دھچکا لگے گا کہ شاید مسلم لیگ ن کی قیادت بھی کسی حد تک بزداریا عمران کی پالیسیوں کو آگے بڑھانا چاہتی ہے۔اہم وزارتوں پر براجمان لوگوں کو تو بالکل بھی پارٹی ٹکٹس کے قریب سے بھی نہیں گزرنے دینا چاہئے۔ایک تو یہ لوگ کبھی آپ کی جماعت سے مخلص نہیں ہوسکتے۔اس وقت مجبوری کے تحت یہ آپکا ٹکٹ تو لے رہے ہیں لیکن اگر حالات بدلے تو یہ لوگ سب سے پہلے آپکی کشتی سے چھلانگ لگائیں گے۔اس لئے ایسے لوگوں پر بھروسہ کرنا پارٹی کے مفاد میں نہیں۔کوشش کریں کہ گزشتہ پانچ سال میںجو لوگ اچھے برے وقت میں پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے ،انہی لوگوں کو آزمائیں۔جہاں پر آپکا امیدوار بہت کمزور ہے، وہاں پر بہتر آپشن کی طرف جائیں اور بہتر آپشن میں سب سے پہلا پیمانہ’’قابل بھروسہ‘‘ہونا ہے۔کیونکہ اس وقت قائدِ مسلم لیگ ن کیلئے سب سے بڑا چیلنج ٹکٹوں کی تقسیم کا ہے۔اگر وہ اس چیلنج سے نپٹنے میں کامیاب ہوگئے تو عام انتخابات میں ان کی جماعت بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگی۔لیکن اگر ٹکٹوں کی تقسیم پر خصوصی توجہ نہ دی گئی تو مسلم لیگ ن کیلئے مشکلات بڑھ سکتی ہیں اور8فروری کو صورتحال مختلف بھی ہوسکتی ہے۔اس لئے ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے کو میاں نوازشریف صاحب کو خود دیکھنا ہوگا اور انہیں اس کا آخری وقت تک پہرا دینا ہوگا۔اگر وہ اس میں کامیاب ہوگئے تو ان کی 8فروری کو کامیابی یقینی ہے۔