پاکستان میں غیر قانونی طورپر مقیم افغان شہریوں کو واپس بھیجے جانے پر آہ وفغاں کا سلسلہ اب چیخ و پکار میں بدلتا جارہا ہے اور یہ بیانیہ متشکل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ گویا اسکے نتیجے میں پاک افغان جنگ چھڑ جانے کا امکان ہے۔ گاہے انسانی حقوق کی آڑ میں اس فیصلے پر تنقید کی جاتی ہے تو کبھی امت مسلمہ کی نہایت بھونڈی دلیل دی جاتی ہے۔ یہ استدلال بھی کیا جاتا ہے کہ چونکہ افغان جہاد میں پاکستان نے اس خطے کو تزویراتی گہرائی کی حکمت عملی کے تحت میدان جنگ بنایا، لہٰذا ملک بدر ہونیوالے افغانوں کی مہمان نوازی کرنا حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ بعض تو یہ طعنہ بھی دیتے ہیں کہ افغان پناہ گزینوں کے نام پر اربوں ڈالر وصول کئے گئے تو اب نہیں پاکستان سے کیوں نکالا جا رہا ہے۔ پہلے تو تزویراتی گہرائی کی حقیقت جان لیں۔ اسٹرٹیجک ڈیپتھ کے جس نظریئے کو پاکستان کے محافظوں نے تزویراتی گہرائی سمجھا، وہ دراصل تزویراتی کھائی تھی اور ہم اس میں گرتے چلے گئے۔ سائبیریا کے برفانی علاقوں میں لوگ شکار کرنے کیلئے ایک خنجر پر کسی جانور کا خون لگا کر اسے برف میں گاڑ دیتے ہیں ۔ برفانی بھیڑیا خون کی خوشبو سونگھتا ہوا آتا ہے اور اسے چاٹنا شروع کردیتا ہے۔ تیز دھار خنجر کی نوک سے اسکی زبان کٹ جاتی ہے، وہ اپنا خون چاٹتے ہوئے بیہوش ہوکر گرجاتا ہے۔ ہمارے منہ کو خون لگا ہوا تھا، طالبان نے اس کمزوری کا فائدہ اُٹھایا اور تزویراتی گہرائی کا جھانسہ دیکر ہمیں شکار کر لیا ۔ اب صورتحال یہ ہے کہ طالبان نے پاکستان کو افغانستان کی تزویراتی گہرائی بنادیا ہے۔ اگست 2021ء میں طالبان کابل میں داخل ہوئے تو پاکستان بھر میں اس مہم جوئی کو اسٹرٹیجک ڈیپتھ یعنی تزویراتی گہرائی کے ریاستی بیانیے کی کامیابی کے طور پر پیش کیا گیا اور یہ تاثر دیا گیا کہ جیسے اب افغانستان پاکستان کا حصہ بن گیا ہے۔ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اس کامیابی کا کریڈٹ لینے کیلئے افغانستان جا پہنچے اور کابل کے ایک پنج تارہ ہوٹل کی لابی میں چائے سے جی بہلاتے ہوئے فاتحانہ مسکراہٹ کیساتھ کہا ،پریشان ہونے کی ضرورت نہیں،سب ٹھیک ہو جائیگا۔ ان کے ڈھنڈورچیوں نے ڈھول کی تھاپ پر منادی شروع کر دی اور قوم کو یہ مژدہ جانفزا سنایا گیا کہ جو کام حمید گل نہ کرسکے، وہ فیض حمید نے کردکھایا۔اس کے بعد جب فاتح کابل لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید پشاور کے کورکمانڈر بنے تو تحریک طالبان پاکستان کیساتھ جنگ بندی کا معاہدہ کرلیا گیا۔ جنگ بندی کی آڑ میں ان دہشت گردوں نے ایک بار پھر پاکستان میں قدم جمانا شروع کردیئے۔ اس دوران وزیراعظم عمران خان طالبان کی وکالت کرتے رہے اور انکا مقدمہ بہت زبردست انداز میں عالمی فورمز پر پیش کرتے رہے۔ 29نومبر 2022ء کو جب جنرل قمر جاوید باجوہ اور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید ایک ساتھ رخصت ہوئے تو تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے جنگ بندی ختم کرکے پھر سے حملے شروع کرنے کا اعلان کردیا گیا۔ جب طبلچی اور ڈھنڈورچی جھوٹی اور غیر حقیقی کامیابیوں کے گن گارہے تھے تو تب بھی یہ گزارشات پیش کی تھیں کہ کابل میں طالبان کی آمد کسی حساب سے پاکستان کیلئے خیر کی خبر نہیں۔ کچھ عرصہ بعد ہی پاک افغان بارڈر پر لگی باڑ اکھاڑنے کا سلسلہ شروع ہوگیا اور افغان طالبان کی طرف سے واضح کردیا گیا کہ ہم اس سرحد کو نہیں مانتے۔ پھر مغربی سرحد پر اشتعال انگیزی کا آغاز ہوگیا۔ سرحد پار سے حملے ہونے لگے۔ افغانستان ان طالبان کی محفوظ پناہ گاہ بن گیا جو پاکستان میں کارروائیاں کرنے کے بعد وہاں جا کر چھپ جاتے۔ پاکستانی طالبان کے ہاں یہ سوچ پنپتی چلی گئی کہ اگر افغانستان میں امریکہ جیسی سپر پاور کو شکست دی جاسکتی ہے تو پاکستان میں بھی فوج کیخلاف کامیابی حاصل کرنا ناممکن نہیں۔ تلخ حقیقت یہی ہے کہ افغان طالبان پاکستان میں فساد پھیلانے والے ان دہشت گردوں کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور وعدوں کے برعکس انکا راستہ روکنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کرتے۔ پاکستان کو مغربی سرحد کی طرف سے جو چیلنجز درپیش ہیں وہ محض عسکری نوعیت کے نہیں۔ سفارتی ،سیاسی،تجارتی اور معاشی حوالوں سے بھی پاکستان کو مشکلات کا سامنا ہے۔ مثال کے طور پر افغان طالبان کی آمد سے پہلے پاکستانی مزدور وہاں کام کرنے جایا کرتے تھے اور ڈالروں کی شکل میں غیر ملکی زرمبادلہ پاکستان آتا تھا مگر اب ڈالروں کی افغانستان اسمگلنگ کا معاملہ اس قدر گھمبیر شکل اختیار کر گیا ہے کہ پاکستانی کرنسی کی قدر مسلسل گھٹ رہی ہے اور ڈالر کی شرح تبادلہ سنبھلنے میں نہیں آرہی ۔معاملہ صرف یہیں تک محدود رہتا تو الگ بات تھی۔ زرعی اجناس جیسا کہ چاول اور گندم کوغیر قانونی طریقے سے سرحد پار لے جایا جارہا ہے۔ یوں پاکستان کو زرعی ملک ہونے کے باوجود مہنگی گندم درآمد کرنا پڑ رہی ہے اور اس سے امپورٹ بل میں اضافہ ہورہا ہے۔بدقسمتی سے پاکستان کو بیک وقت کئی محاذوں پر چومکھی لڑائی کا سامنا ہے۔ اگر افغان جہاد کا کفارہ ادا کرنا ہے تو یہ امریکہ بہادر کافرض بنتا ہے۔ پاکستان کی حیثیت تو محض اگاڑی ریاست (Front Line State) کی تھی اور ہم اسکا خمیازہ مسلسل بھگت رہے ہیں۔رہی بات ڈالروں کی تو اب جبکہ افغان شہری واپس جارہے ہیں تو طالبان حکومت یہ ڈالر براہ راست وصول کرسکتی ہے۔ویسے بھی ہمارے ہاں موجود طالبان کے ہمدرد سمجھتے ہیں کہ وہاں مثالی اسلامی فلاحی ریاست وجود میں آچکی ہے، سب کیساتھ انصاف ہوتا ہے تو پھران افغان پناہ گزینوں کو کیوں نہ واپس بھیجا جائے؟ امت مسلمہ کا راگ الاپنے والے بس ایک سوال کا جواب دیدیں ،جن پاکستانیوں نےافغان جہادمیںاپنی جوانیاں لُٹادیں ،انہیں تو سرکاری مہمان کے طور پر کابل مدعو کرکے ایوارڈ دیئے جانے چاہئیں مگر کیا کوئی ایسا شخص بغیر ویزے کے افغانستان جاسکتا ہے؟ آخری سوال روشن خیال اور لبرل قوم پرستوں سے ۔ جس طرح ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف یکساں پشتون کلچر ہے،اسی طرح واہگہ بارڈر کے دونوں طرف ایک جیسا پنجاب کلچر ہے تو کیا اس بنیاد پر بھارتی پنجاب کے لوگ لاہور میں غیر قانونی طور پر رہ سکتے ہیں؟