• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

جناح ثانی کہتا رہا کہ’’ ہم انڈیا سے ہزار سال جنگ لڑیں گے‘‘ کیا کبھی نواز شریف نے محکمانہ چاپلوسی کیلئے ایسی گراوٹ کا مظاہرہ کیا؟ ایک اور جنا ح تھرڈ آیا ، بظاہر مودی کی جیت کیلئے دعائیں مانگنے والا لیکن کہتا رہا کہ مودی میری کال نہیں سنتا ! ایک دن انڈیا سے تجارت پاکستان کے قومی مفاد میں تھی سو وزیر تجارت کی حیثیت سے اس کی منظوری دے دی اگلے روز پی ایم کی حیثیت سے اسی شخص نے اس کے الٹ فیصلہ دے دیا، اس کے بالمقابل نواز شریف نے جو بھی پالیسیاں اپنائیں اس کے بد ترین مخالفین کو بھی بالآخر وہی اپنانا پڑیں ۔

بلاشبہ نواز شریف ہمارا قومی اثاثہ ہے ، جس کے پاس انڈین پرائم منسٹر واجپائی پاک ہندو دوستی کی خاطر خود چل کر لاہور آیا اور مینار پاکستان پر جو کچھ کہا وہ تاریخ کا حصہ ہے ۔‎یہی معاملہ وزیر اعظم مودی کا رہا ،پھنے خاں کا وہ فون نہیں سنتا مگر نواز شریف کے گھر آیا اورفیملی کی طرح ملا ۔

چوتھی وجہ جس کے کارن یہ درویش نواز شریف کو ہمیشہ بحیثیت قومی لیڈرپسند کرتا ہے وہ یہ ہے کہ پاپولر عملی سیاست دان ہونے کے باوجود اس کی لبرل اپروچ ہے، اس نے مذہب کا سیاسی استعمال بڑی حد تک ترک کر دیا ہے ،یہاں سمجھا یہ جاتا ہے کہ پاپولر ہونے کیلئے مذہبی تڑکہ لازم ہے اور اس سلسلے میں لوگ ہمہ وقت ضیا الحق کو کوستے رہتے ہیں، درویش عرض گزار ہے کہ اصل ایشو کسی ڈکٹیٹر کا نہیں، ان کا ہے جو خود کو عوامی قائد کہلوانے کے دعویدار رہے ہیں ۔ اس خطہ ہند و پاک میں انہوں نے جو اندھیر نگری بپا کئےرکھی، اصل رونا تو اس کا ہے۔

اگر کوئی عوامی قائد بھرے جلسے میں یہ کہے کہ ہاں میں تھوڑا سا شغل کر لیتا ہوں اور پھر وہی شخص پورے ملک میں اس پر پابندی لگاتے ہوئے ہیروئن جیسی بربادی لائے اسےکیا کہیں گے آپ ؟ ایسے عوامی لیڈروں کو ذاتی طور پر مذہب کی ابجد کا بھی علم نہیں ہوتا عمل تو دور کی بات ، مگر سستی شہرت کیلئے اپنی ہر تقریر میں بات بے بات مذہبی حوالہ جات کا ٹچ دیتے چلے جائیں تو پھر ان بہروپیوں کو قومی قائد آخر کس منہ سے کہا جائے؟ ۔

ان سب کے بالمقابل نواز شریف واحد ایسا لیڈر ہے جس نے اپنی ذاتی زندگی میں اچھا خاصا مذہبی ہونے کے باوجودیہ چورن بیچنے سے احتراز کیا، شروعات کی اگر ایسی کوئی مثالیں ڈھونڈی جا سکتی ہیں تو یاد رہے کہ انسان وقت اور ایوولیوشن سے سیکھتا ہے اور اس پر عمل پیرا ہونے کیلئے کوشاں رہتا ہے تو اس کی قدر و تحسین کی جانی چاہئے، زیادہ بول نہیں بولتے جناح سیکنڈ نے سستی عوامی شہرت کیلئے جمعہ کی چھٹی کا اعلان کیا حالانکہ کاروباری لوگ اس سے پیہم پریشان رہے کیونکہ یہ چیز انٹرنیشنل سطح پر تجارتی معاملات میں رخنے و مسائل پیدا کرتی تھی، نواز شریف کا کتنا بڑا اور بولڈ اقدام تھا جب اس نے اتوار کی چھٹی بحالی کی ۔ درویش کو اچھی طرح یاد ہےکہ نواز شریف کے کتنے قریبی لوگوں اور شعبہ صحافت کی شخصیات نے اس پر اسے جلی کٹی سنائیں لیکن نواز شریف نے پاکستان کےتجارتی و قومی مفاد میں اٹھائےگئے اقدام پر استقامت دکھائی۔

نواز شریف کی پانچویں خوبی اقلیتی اور کمزور طبقات کیلئے انکی خصوصی اپنائیت ہے وہ نہ صرف یہ کہ چھوٹے صوبوں کے بلوچ اور پختون بھائیوں کو ہمیشہ ساتھ لے کر چلے اور ان کی قدرافزائی کی بلکہ مذہبی اقلیتی طبقات کی دلجوئی کرتے اور انہیں برابر کے شہری تسلیم کرتے ہوئے انھیں نیا حوصلہ و اعتماد دیا۔ اس خوفناک منافرت بھرے ماحول میں ایک انتہائی کمزور کمیونٹی کو جو ہمہ وقت چند ایک جنونی لوگوں کے ستم کا شکار رہتی ہے بھرے جلسے میں انہیں اپنا بھائی کہنا اور ان سے اظہار ہمدردی کرنا! کسی موقع پرست سیاست دان میں ایسا اعتماد عزم اور حوصلہ نہیں آسکتا۔

لہٰذا نواز شریف جیساشخص ہی قومی قائد کہلانے کا حقدار ہے جس کی ہندوئوں ،سکھوں اور مسیحیوں جیسی اقلیتوں کےساتھ حسن سلوک کی کئی مثالیں پیش کئے جانے کے قابل ہیں۔

تازہ ترین