سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیض آباد دھرنا کیس میں گزشتہ روز کی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کر دیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنا کیس سماعت کے حکمنامے میں 9 مئی واقعات کا حوالہ بھی دیا۔
قوم نے ناانصافی کا خمیازہ 9 مئی کے واقعات کی صورت بھگتا
حکمنامے میں کہا گیا کہ فیض آباد دھرنا کیس فیصلے پر نظرثانی درخواستیں سماعت کیلئے مقرر نا کرنے سے فیصلے پر عملدرآمد نا ہوسکا، ماضی کے پرُتشدد واقعات کیلئے کسی کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا نا ہی کوئی کارروائی ہو سکی، حیرت کی بات نہیں کہ فیصلے پر عمل نا ہونے سے ذاتی مقاصد کیلئے پر تشدد واقعات کرنا معمول بنا، آزاد عدلیہ کے لیے جدوجہد کرنے والے متاثرین سے نا انصافی ہوئی، فیصلے پر عمل نا ہونے سے بہتر پاکستان کیلئے جدوجہد کرنیوالوں سے بھی ناانصافی ہوئی، قوم نے ناانصافی کا خمیازہ 9 مئی کے واقعات کی صورت بھگتا۔
عدالت نے کہا کہ فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ پُرتشدد واقعات کی نشاندہی کر رہا تھا، فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ مستقبل کے خدشات واضح کر رہا تھا، کیس کے فیصلے کو مختلف حکومتوں نے 5 سال تک نظر انداز کیا۔
عدالتی حکمنامے میں کہا گیا کہ فیض آباد دھرنا فیصلے پر تمام نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی بنیاد پر نمٹائی جا چکی ہیں، اب دیکھنا ہوگا فیض آباد دھرنا فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے والوں کے خلاف کیوں نہ توہین عدالت کی کارروائی کی جائے؟
فیصلے کے وقت کی حکومت اور الیکشن کمیشن بدل چکے
حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ فیصلے کے وقت کی حکومت اور الیکشن کمیشن بدل چکے، موجودہ حکومت اور الیکشن کمیشن کو سابق حکومت اور الیکشن کمیشن کی غلطیوں کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا، موجودہ حکومت اور الیکشن کمیشن فیض آباد دھرنا فیصلہ تسلیم کرکے عملدرآمد کا کہہ چکے، وفاقی حکومت نے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے کمیشن بنا دیا ہے، امید کرتے ہیں کہ کمیشن دو ماہ کی مقررہ مدت میں کارروائی مکمل کر لے گا۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کی فارن فنڈنگ کی جانچ پڑتال کے لیے ایک ماہ کا وقت مانگا تھا، الیکشن کمیشن ٹی ایل پی کی فارن فنڈنگ کے متعلق ایک ماہ میں رپورٹ جمع کروائے۔
سپریم کورٹ قرار دیتی ہے ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائی جائیں گی
عدالت نے کہا کہ سپریم کورٹ اتنے سال کیس مقرر نہ کرنے پر ذمہ داری قبول کرتی ہے، سپریم کورٹ خود پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کیلئے ہیر پھیر تسلیم کرتی ہے، سپریم کورٹ قرار دیتی ہے ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائی جائیں گی، سچ آزاد کرتا ہے اور اداروں کو مضبوط بناتا ہے، پاکستان کے عوام کا حق ہے کہ ان تک سچ پہنچایا جائے، ہر ادارے کا فرض ہے کہ وہ ذمہ داری اور شفافیت کا مظاہرہ کرے، اداروں سے غلطی ہو تو اس کو تسلیم کرنا چاہیے۔
حکمنامے میں کہا گیا کہ غلطیاں نظر انداز اور دبانے سے ٹیکس ادا کرنے والے عوام کے مفاد کے خلاف ہے، عوام کا اداروں پر عدم اعتماد آمریت کو فروغ اور جمہوریت کی نفی کرتا ہے، اپنے اداروں کو داغدار کرنے والے اداروں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے ہیں، اداروں کو داغدار کرنے والے اپنے اداروں کی نفی کرکے اپنی انا کی تسکین کرتے ہیں۔
شیخ رشید سے بار بار پوچھا نظرثانی درخواست کیوں دائر کی؟
عدالتی حکمنامے میں کہا گیا کہ شیخ رشید کے وکیل نے ان کی موجودگی میں نظرثانی درخواست واپس لی، شیخ رشید سے بار بار پوچھا نظرثانی درخواست کیوں دائر کی؟ شیخ رشید سے بار بار پوچھا 4 سال 8 ماہ تک نظر ثانی درخواست واپس کیوں نہیں لی؟ شیخ رشید نے کہا انہوں نے غلط فہمی کی بنیاد پر نظر ثانی درخواست دائر کی تھی، حیرت ہے ایک سیاسی رہنما اور سابق وفاقی وزیر نے غلط فہمی کی بنیاد پر نظر ثانی دائر کی، عدالت نے شیخ رشید سے پوچھا آپ نے کسی کے کہنے پر نظر ثانی دائر کی تھی؟
سپریم کورٹ نے کہا کہ وفاقی حکومت کے تشکیل کردہ کمیشن کو دیکھنا ہوگا کس کے کہنے پر نظرثانی درخواستیں دائر ہوئیں، شیخ رشید کی نظرثانی درخواست عدم پیروی پر خارج کی جاتی ہے۔
ابصار عالم کی درخواست واپس لینے کی بنیاد پر نمٹائی جاتی ہے
تحریری حکمنامے میں کہا گیا کہ ابصار عالم نے بطور چیئرمین پیمرا اپنی برطرفی کے خلاف اپیلوں پر متفرق درخواست جمع کروائی، ابصارعالم کی درخواست سے عدالت نے یہ اخذ کیا کہ وہ اپنی اپیلیں بحال کروانا چاہتے ہیں، ابصار عالم نے کہا کہ وہ چیئرمین پیمرا کے عہدے پر بحالی نہیں چاہتے، ابصار عالم نے کہا کہ وہ اپنے خلاف آئی آبزرویشن کو چیلنج کرنا چاہتے ہیں، ابصار عالم کی درخواست واپس لینے کی بنیاد پر نمٹائی جاتی ہے، سپریم کورٹ کےمتعلقہ ایڈیشنل رجسٹرارفیض آباد دھرنا فیصلے پر نظرثانی درخواستیں مقرر نہ ہونے پر رپورٹ جمع کروائیں۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ فیض آباد دھرنا فیصلے پر عملدرآمد کیس کی مزید سماعت22 جنوری 2024 کو ہوگی۔