پچھلے دنوں جس طرح کی خبریں پڑھنے کو ملیں، اس سے حفیظ جالندھری صاحب کی نظم ’’ابھی تو میں جوان ہوں‘‘ یاد آگئی۔ چند لائنیں آپ بھی پڑھئے:
ابھی تو میں جوان ہوں
نہ مئے میں کچھ کمی رہے قدح سے ہمدمی رہے
نشست یہ جمی رہے یہی ہُما ہُمی رہے
وہ راگ چھیڑمُطر با
طرب فزاء، الم رُبا
اثر صدائے ساز کا
جگر میں آگ دے لگا
ہر ایک لب پہ ہو صدا نہ ہاتھ روک ساقیا
پلائے جا پلائے جا
ابھی تو میں جوان ہوں
جس طرح کے لوگوں کے حوالے سے خبریں پڑھنے کو مل رہی ہیں، ان کی عمر کو دیکھتے ہوئے حفیظ جالندھری کی اسی نظم کی کچھ لائنیں اور بھی یاد آ رہی ہیں یعنی:
امید اور یاس گم
حواس گم قیاس گم
نظر سے آس پاس گم
ہَما، بجز گلاس گم
حواس تو پتہ نہیں ان کے گم ہیں یا نہیں اس لئے کہ ان سے پیشتر سندھ کے ایک نامور پیر نے کوئی 80برس کی عمرمیں کہتے ہیں ایک بچہ پیدا کیا تھا، ان سے جناب مولانا بھاشانی کا ریکارڈ تو نہ ٹوٹ سکا اس لئے کہ جس عمر میں مولانا بھاشانی نے ایک عدد برخوردار پیدا کیا اس عمر میں تو انسان صرف غالب ؔکا شعر ہی پڑھ سکتا ہے کہ:
گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے
اب زیادہ بھی تجسس قائم کرنا اچھا نہیں ہوتا۔ جی یہ خاکسار جناب دولہا میاں ذوالفقار کھوسہ صاحب کے بارے میں کچھ عرض کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اب یہ تو نہیں معلوم کہ انہیں تقریباً 79برس کی عمر میں صرف اس آواز کو سننے کا شوق ہے کہ ’’اب دولہا میاں کو لے آئو‘‘ یا وہ نامور سندھی پیر اور بھاشانی صاحب کا ریکارڈ توڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ویسے میں ذاتی طور پر 80سالہ سنیاسی بابا کے سخت خلاف ہوں۔ لیکن شادیوں کے اس موسم میں یا کھوسہ صاحب کی اس شادی میں مسلم لیگ (ن) کے اکثر اراکین نظر نہیں آئے۔ ان کی ناراضی صاف ظاہر ہے۔ مسلم لیگ (ن) سندھ کے اراکین کی طرح کھوسہ صاحب بھی ان دنوں ناراض پھرتے ہیں، انہوں نے اپنے لئے تو فراغت میں کچھ مشاغل ڈھونڈ لئے ہیں لیکن شاید وہ مسلم لیگ (ن) کی باقی قیادت کے لئے مشعل راہ نہ بن سکیں۔ حالانکہ میڈیا میں اتنی تشہیر کے بعد انہوں نے فرمایا کہ میری شادی آپ کو بری لگ رہی ہے جبکہ اس سیاسی شخصیت کو کچھ نہیں کہتے جو ہر چند ماہ بعد نئی شادی کرتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ ان کا اشارہ شاید مصطفیٰ کھر صاحب کی طرف ہی ہو گا، کسی اور طرف اشارہ کرنے کی مجھ میں تو جرأت نہیں۔
ویسے ان دنوں مسلم لیگ (ق) کی ایک خوبرو خاتون نظر نہیں آ رہیں، اور جناب خواجہ سیالکوٹی تو ظاہر ہے کہ وہ اپنی ’’مصروفیات‘‘ کے سبب سائوتھ افریقہ یا شاید امریکہ گئے ہوئے ہیں۔ ان کی دن رات کی تگ و دو سے لگتا یہی ہے کہ ’’بجلی کا مسئلہ ضرور حل ہو جائے گا‘‘ اور تو اور جناب وزیر داخلہ صاحب کی بھی ناراضی کی خبریں مل رہی ہیں۔ سنا ہے کہ موصوف طالبان سے مذاکرات کے لئے بنائی گئی کمیٹی کے حوالے سے ناراض ہیں۔ اوہ! میں کس طرف چل پڑا۔ میرا مسئلہ تو اس وقت مسلم لیگ (ق) اور (ن) کے اراکین کے حوالے سے گرم خبروں کے حوالے سے ہے۔ اللہ انہیں خوش اور ان کے بچوں کو آباد رکھے۔ ہم ایسے میں حفیظ صاحب کی نظم ’’ابھی تو میں جوان ہوں‘‘ کی کچھ اور لائنیں پڑھتے ہیں:
ہوا بھی خوشگوار ہے گلوں پہ بھی نکھار ہے
ترنم ہزار ہے بہار پُر بہار ہے
کہاں چلا ہے ساقیا
اِدھر تو لوٹ اِدھر تو آ
ارے یہ دیکھتا ہے کیا
اٹھا سُبو، سُبو اٹھا
سُبو اٹھا پیالہ بھر پیالہ بھر کے دے اِدھر
چمن کی سمت کر نظر سماں تو دیکھ بے خبر
وہ کالی کالی بدلیاں
افق پہ ہو گئیں عیاں
وہ اک ہجوم میکشاں
ہے سُوئے میکدہ رواں
ابھی تو میں جوان ہوں