• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارتی جارحیت کے بعد UN آرٹیکل 51 حق دفاع کیلئے استعمال ہوگا؟

کراچی ( زیب النسا برکی) بھارت کی جانب سے اپنی حالیہ فوجی کارروائی کو "محدود اور غیر اشتعالی" قرار دینے کے بعد، پاکستان نے اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے دفاع کا حق استعمال کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان نے خبردار کیا ہے کہ وہ اس کارروائی کا "مضبوط جواب" دے گا، بدھ کی صبح قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بھی اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ پاکستان کو اپنے دفاع کے لیے کسی بھی وقت، جگہ یا انداز میں ردعمل دینے کا مکمل حق حاصل ہے۔ بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دووال نے بدھ کے روز عالمی رہنماؤں سے رابطہ کیا اور کہا کہ بھارت کی جانب سے مزید اشتعال انگیزی کا کوئی ارادہ نہیں، تاہم اگر پاکستان نے کوئی کارروائی کی تو بھارت اس کا جواب ضرور دے گا۔ دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف نے قوم سے خطاب اور پارلیمان میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے واضح کیا کہ بھارت کی جانب سے مسلط کردہ اس جنگی عمل کا پاکستان کو بھرپور جواب دینے کا حق حاصل ہے اور پاکستان یہ جواب دے رہا ہے۔پاکستان نے اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے دفاع کو جائز قرار دیا ہے۔ آرٹیکل 51کے مطابق: "اقوامِ متحدہ کے موجودہ منشور میں کوئی شق انفرادی یا اجتماعی دفاع کے فطری حق کو متاثر نہیں کرے گی اگر اقوامِ متحدہ کے کسی رکن ملک پر مسلح حملہ ہو، جب تک کہ سلامتی کونسل بین الاقوامی امن و سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری اقدامات نہ کرے۔"بدھ کی صبح قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بھی اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ پاکستان کو اپنے دفاع کے لیے کسی بھی وقت، جگہ یا انداز میں ردعمل دینے کا مکمل حق حاصل ہے۔ پاکستان میں اس پر تقریباً اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ بھارت کی کارروائی بلاجواز جارحیت اور اعلانِ جنگ کے مترادف ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان کے پاس دو راستے ہیں: یا تو جوابی فوجی کارروائی کرے، یا اپنی موجودہ دفاعی پوزیشن کو کافی سمجھے۔وزیر دفاع خواجہ آصف نے جیو نیوز کے شاہزیب خانزادہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا، لیکن ہمارے پاس اخلاقی اور قانونی جواز موجود ہے۔ تمام آپشنز میز پر ہیں۔" وزیراعظم کے مشیر رانا ثناءاللہ نے بھی میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان نے بھرپور جواب دیا ہے، اور اگر بھارت مزید کچھ کرے گا تو ہم بھی کریں گے۔ اگر بھارت خاموش رہا تو ہم بھی ذمہ دار ریاست کی حیثیت سے خاموش رہیں گے، تاہم بعد ازاں انہوں نے جیو کے حامد میر کو بتایا کہ پاکستان کو اب بھی "بدلے" کا حق حاصل ہے۔پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے عالمی میڈیا سے گفتگو میں کہا، "پاکستان کے پاس کیا راستہ ہے؟ معصوم شہری مارے گئے ہیں، اور ہماری خودمختاری پامال ہوئی ہے۔"بین الاقوامی قانون کے تحت پاکستان کی پوزیشن پر بات کرتے ہوئے قانونی ماہر ریما عمر نے جیو نیوز کو بتایا کہ "آرٹیکل 51 دفاع کے لیے ہے، بدلے یا انتقام کے لیے نہیں۔" ان کے مطابق، اگر پاکستان اب کوئی مزید کارروائی کرتا ہے تو وہ قانونی طور پر متنازع ہو جائے گا، کیونکہ "خود دفاع" کا مفہوم صرف حملے کو روکنے تک محدود ہے، کسی کو سبق سکھانے یا انتقام لینے کے لیے نہیں۔ریسرچ سوسائٹی آف انٹرنیشنل لا کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر، جمال عزیز کے مطابق، بھارت کا حملہ بین الاقوامی قانون کی ہر تعریف کے تحت مسلح جارحیت تھا، اور پاکستان کو اس پر آرٹیکل 51کے تحت طاقت استعمال کرنے کا حق حاصل تھا۔ ان کے مطابق، دو قانونی مکاتب فکر ہیں: ایک کے مطابق دفاع صرف فوری حملے کے دوران ہی کیا جا سکتا ہے، جبکہ دوسرے، جو نائن الیون کے بعد وجود میں آیا، کے مطابق اگر مستقبل میں بھی خطرات موجود ہوں تو دفاع کا حق باقی رہتا ہے۔عزیز کے مطابق، بھارت نے جو کچھ کیا وہ دہشت گردی کے خلاف کارروائی کے بہانے سے بین الاقوامی قوانین کو مسخ کرنے کی کوشش ہے، مگر کلاسیکی بین الاقوامی قوانین کے تحت اگر حملہ ہو چکا ہو تو پاکستان کو دفاع کا حق حاصل ہے — خاص طور پر جب بھارت کوئی واضح ثبوت بھی پیش نہ کر سکا ہو۔پاکستان کی سابق اقوام متحدہ کی مستقل مندوب، ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے بھی اس مؤقف کی توثیق کی۔ ان کے مطابق، جب تک پاکستان مضبوط ردعمل دے کر ڈیٹرنس قائم نہیں کرے گا، بھارت کو بیک چینل مذاکرات کی ترغیب نہیں ہوگی۔

اہم خبریں سے مزید