• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اجارہ داری

ہم من حیث القوم زندگی کے ہر شعبے میں ذاتی اجارہ داری کا شوق رکھتے ہیں، جسے بھی جو کچھ مل گیا ہے وہ اس پر چوڑا ہو کر اس طرح بیٹھ جاتا کہ کسی دوسرے کے سامنے ذکر کرنے کا روادار نہیں ہوتا جبکہ مالک حقیقی نے واضح کہا ہے کہ اللہ نے تجھے جو نعمتیں عطا فرمائی ہیں انہیں بیان کرو، آج 76برس گزر گئے مگر ہماری اکثریت جہاں کھڑی تھی وہیں ہے اسلئے کہ ہمارے ارباب اقتدار نے گوشوارے پیش کئے تو ادھورے، اقتدار سے تو جیسے پکا نکاح کر لیا ہے کہ اقتدار رانی بھلے بوڑھی اور ازکار رفتہ ہو جائے اسے پوری کوشش کرکے اپنے آنگن سے باہر نہیں جانے دینا اس کے باوجود کہ صحیفہ جمہوریت پر ہاتھ رکھ کر حلف اٹھا رکھا ہے جس کو اقتدار، دولت، شہرت کی لت لگ گئی اس نے اور تو اور دینداری میںبھی اجارہ داری کو راہ دے دی ہے، ریاکاری بھی اجارہ داری ہے اسی لئے عبادت بھی لائوڈ اسپیکر پر کرتے ہیں حالانکہ خالق ذوالجلال نے بار بار فرمایا ہے کہ بہت زیادہ سننے ،دیکھنے والا ہوں۔ رسول اللہؐ کا فرمان ہے ایک زمانہ آئے گا کہ عبادت میں ریاکاری عام ہو گی یہی وجہ ہے کہ نمازی اپنی گفتگو میں اپنی نماز کو لاکر ضائع کر بیٹھتا ہے ،مفلسوں کی طرف آتی خوشحالی کا رخ فضا ہی میں ارباب بست وکشاد اپنی طرف موڑ لیتے ہیں، یہودونصاریٰ جو انسانی حقوق کے علمبردار ہیں انہوں نے اپنی ایک سپرپاور بنالی ہے جس کے بل بوتے پر انکی چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو اگر پوری مسلم امہ بھی ملکر چھیڑ دے تو ان کی سپر پاور طیارہ بردار بیڑے لیکر پہنچ جاتی ہے اور مسلم کمیونٹی کے خلاف اپنے لواحقین کو گرین لائٹ دکھا دیتی ہے کہ شاباش بچہ جمورا اس کلمہ گو امت کے سب گھروندے گرا دو، نسل مٹا دو کہ اس زمین پر ہماری اجارہ داری ہے یہ اقوام متحدہ یہ او آئی سی تو عضو معطل ہیں ان کے بیانات ہی جاری ہوتے ہیں یہ آزمائشیں ہیں جو حق و باطل کو واضح کر دیں گی اور حق ہی کو غالب آنا ہے اور باطل کو مٹ جانا ہے۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

بلاول کی پکار ڈھونڈے اقتدار

حسین ہوں ،جوان ہوں اے اقتدار بیگم آخر مجھ میں کیا کمی ہے ؟کہ تو مجھے ٹھکرا دے اگر تو واقعی طاقت کا سرچشمہ ہے تو میری طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں اور یہ سرچشمہ موروثی ہے ہمارا مشورہ تو یہ ہے کہ مٹی پائو یا معصومانہ سی خواہش ہے میں سے کسی ایک ضرب المثل کا انتخاب کر لیں بہرحال معصومانہ سی خواہش پوری کر دیں، یہ فقرہ ممکن ہے اکثریت کے دل موم کر دے۔ برخوردار 16ماہی حکومت میں کامیاب وزیر خارجہ بھی رہ چکے ہیں ساری دنیا پھرلیے، لیکن افغانستان نہیںگئے شاید افغانستان مشکل ملک ہے چلو اچھا ہوا کہ نگران وزیر اعظم نے افغانستان کی غیر قانونی امانت لوٹا دی ہماری فوج نےبھی کاندھا دیا تو ڈولی ہمارے آنگن میں اترنے کے قریب آگئی ، بہرصورت دلہن بھی اسی خواہش کی تکمیل کر سکتی ہے شاید وہ اپنے حصے کا اقتدار ساتھ لے آئے۔کبھی کبھی اس فکر میں گم ہو جاتا ہوں کہ اقتدار کیلئے جانے پہچانے افراد کیوں بے قرار ہیں شاید خوابوں میں بھی ثمربار اقتدار نما خواب دیکھتے ہوں گے ۔اقتدار کی ہوس میں مبتلا ایک سورما تو اپنے ہاتھ پائوں کٹوا کر ’’جیو‘‘ پر چڑھ دوڑے مگر ہتک عزت کا مقدمہ خارج ہو گیا ویسے بلاول زرداری بھٹو کو اگر قوم نے نواز دیا تو نواز شریف کے ساتھ بے انصافی نہیں ہو گی !حضرت عمرؓ کا قول ہے جو کسی عہدے کا مطالبہ کرے وہ اس منصب کیلئے نااہل ہو جاتا ہے، سوال پیدا ہوتا ہے کہ پی پی، ایم کیو ایم کو کیوں گنوا بیٹھی، سیاست میں کرکٹ کی طرح ہمارے ملک میں کچھ بھی ہو سکتا ہے اس لئے یہ تو ہما پرندے پر ہے کہ کونسا سر اسے پسند آ جائے ۔15سالہ سندھ صوبے کی حکمرانی میں پیپلز پارٹی نے وفاق میں حکومت بنانے کیلئے سندھ اور بالخصوص کراچی کے برے حالات کا نوٹس لیا ہوتا تو آج یہ ملک کی بڑی پارٹی کا چیئرمین یوں اقتدار کا کشکول نہ لہراتا، دولت کی فراوانی کب حکمرانی دلوا سکتی ہے کہ عوام ہمارے ملک سمجھ دار ہوگئے ۔

بجلی، تیل، گیس، تیرا ککھ نہ رہوے

خوشخبری:بجلی گیس مزید مہنگی ہو گی مہنگائی کیلئے کس کو ذمہ دار قرار دیا جائے اب یہ طے کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے ،مہنگائی کی دیگ چڑھے 76برس ہو گئے مگر یہ دیگ ہے کہ پکتی ہی نہیں شاید اس میں ہم عوام ہیں جنہیں کھاتا پکاتا کوئی اور ہے،گیس جب آتی ہی نہیں تو نیوندرا کس چیز کا، آخر ہمارے بل آتے ہیں بجلی وگیس کے وہ نہیں آتیں ،گیس تو ملتی ہو گی ان کو جن کو بل نہیں آتا، اب یہ حال ہے ہم غیر اہم عوام کو ہمارا حق کسی اور کو اور قیمت میں اضافہ ہمارے لئے ایک شعر ہی پیش کر دیتے ہیں شاید قارئین کو من پسند جواب مل جائے ؎

یہ بھی عجب ستم ہے کہ مہندی لگائیں غیر

اور ہم سے داد چاہیں وہ ہم کو دکھا کے ہاتھ

ہمارا اندازہ ہے یا الہام کہ گرانی ہو گی ارزانی کبھی ارزانی نہ ہوگی، اس لئے کہ سارے برج ہمارے بخت کے الٹے پڑے ہیں جو اقتدار کے اس قدر چاہنے والے ہوتے ہیں وہ عوام کے کیوں نہیں ہوتے ؟چھوٹے لوگوں کی مشکلات حل نہیں ہوتیں اور ایک اقلیت ہے جس کے دروازے کے سامنےسے گزر کرکسی مفلس کا دروازہ توڑ کر اندر گھس جاتی ہیں اب تو امیروں کے غریب پیروکاروں کا یہ عالم ہے کہ ان کو علامہ اقبال کا وہ شعر بھی نہیں سناسکتے کہ؎ اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو کیونکہ دوسرے مصرعے میں حل موجود ہے مگر اس کو عیاں کرنا منع ہے ،بجلی، گیس کو ضرور مہنگا کریں کہ نگرانوں سے تو ویسے بھی حساب نہیں لیا جاسکتا، کہ وہ صرف راکھی کرنے کے لئے آئے ہیں بہرحال وہ تو اوروں کے بوئے کانٹے چن رہے ہیں انہیں مقام اعراف ہی میں رہنے دیا جائے ۔میاں نواز شریف نے تسلی دی ہے کہ میں اب آ گیا ہوں وہیں سے شروع کروں گا جہاں چھوڑا تھا اور بھی کئی جماعتوں نے یقین دلایا ہے ہم تو اب یہی گزارش کریں گے کہ تمام کامیاب امیدواروں کو یکجا کرکے مجموعے کو حکومتی پارٹی قرار دیا جائے اور اپوزیشن کو رہنے دیا جائے کیونکہ اب اعتراضات و الزامات کا وقت نہیں۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

ازکجامی آید ایںآواز دوست(رومی)

٭سرکاری افسران کے عہدوں کےساتھ لفظ (صاحب) استعمال کرنے پر پابندی ہے گویا اب ڈی سی صاحب کو فقط ڈی سی کہا جائیگا بڑی آہستگی سے افسری کا مزہ ختم ہو رہا ہے ویسے ہمارے تمام عہدوں کو اردو میں کر دیا جائے تو گراف اور نیچے آ جائے گا کمشنر کو ناظم اور ڈپٹی کمشنر کو نائب ناظم کہا جائے تو ممکن ہے خدمت خلق میں افسران سبکی محسوس نہ کریں۔

تازہ ترین