• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریخ یہ ثابت کر تی ہے کہ سیاست میں دو طرح کے افراد اور ان سے وابستہ جماعتیں کسی نہ کسی حوالے سے ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔ ایک کسی ملک کا بانی اور اس کی جماعت ، دوسرا کسی ملک کا مصلح یا ریفارمر اور اس کی جماعت۔ ہمارے ملک میں بھی قائدِ اعظم محمد علی جناح بانی پاکستان سے منسوب جماعت مسلم لیگ سیاست میں کسی نہ کسی لحاظ سے ’’ اِن ‘‘ رہی ہے یہ الگ بات ہے کہ مسلم لیگ کے نام کو سب سے زیادہ فوجی ڈکٹیٹر وں نے اپنے مفادات کیلئے استعمال کیا ہے، چاہے وہ جنرل ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ ہو یا جنرل پرویز مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ ۔ صرف یہی نہیں مسلم لیگ دیگر کئی ناموں سے بھی ہمارے سیاسی میدان میں موجود رہی ہے مثلاََ مسلم لیگ قیوم ، مسلم لیگ خیرالدین ، مسلم لیگ قاسم ، مسلم لیگ ضیاء ، مسلم لیگ نون اور قائدِ اعظم مسلم لیگ وغیرہ وغیرہ ۔ ان میں سے ہر مسلم لیگ گروپ وارث شاہ کی ’’ وڈھی اور اصلی ہیر‘‘ کی طرح خود کو قائدِ اعظم کی اصلی وارث مسلم لیگ قرار دیتی رہی ہے لیکن درحقیقت ان میں اکثر مسلم لیگیں مفاد پرست افراد کا ٹولہ اور ان کے مفادات کی آلہ کار ہی ہیں جنہوں نے بابائے قوم کے جمہوری نظریات کو غیر جمہوری قوتوں کے ہاتھوں گروی رکھ کر مادرِ وطن کے بنیادی حقوق کا سودا کیا اور ملک میں جمہوری اقدار کو پامال کیا۔ اور جب بھی ضرورت پڑی وہ راتوں رات ری پبلیکن پارٹی اور جنرل ضیاء کی مجلسِ شوریٰ میں تبدیل ہو گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ان میں اکثر مسلم لیگوں کا کسی کونام بھی یاد نہیں۔ کیونکہ تخلیق ِ پاکستان کے علاوہ کسی مسلم لیگ کے کریڈٹ میں جمہوری اقدار کی پاسداری کا کوئی کارنامہ موجود نہیں۔ قیامِ پاکستان اور قائدِ اعظم کے بعد مسلم لیگ کے دس سالہ اقتدار میں کوئی ایک کام بھی ایسا نہ ہوسکا جو ہمارے ہاں جمہوری روایات کو مستحکم کرنے میں مدد دیتا ۔ یہاں تک کہ مسلم لیگ ملک کیلئے ایک متفقہ دستوربھی نہ دے سکی اور تقریباََ نو سال کے بعد اس نے 1956کا جو دستور بنایا ۔ اسے بھی نافذالعمل نہ کرسکی۔ حالانکہ انڈیا میں کانگریس کی حکومت نے محض دو سال کے قلیل عرصے یعنی 1949میں ہی اپنا آئین بنالیا تھا۔ اور یہی وہ فرق تھا جس نے بے شمار تضادات میں بٹے ہوئے ہندوستان کو متحد رکھا جو پاکستان سے 7گنابڑا ملک تھا۔ جبکہ پاکستان چھوٹا اور کم تضادات کا حامل ملک ہونے کے باوجود دولخت ہوگیا۔ حالیہ مسلم لیگیں جن میں دو قابلِ ذکر مسلم لیگیں قائداعظم مسلم لیگ اور مسلم لیگ نواز جس طرح سازشوں کے ذریعے معرضِ وجود میں آئیںوہ سیاست کے ہر طالب علم کو بخوبی معلوم ہے ۔

اب ہم دوسری قسم کے لیڈر اور اسکی پارٹی کا ذکر کرتے ہیں ۔ ذوالفقار علی بھٹو ، قائدِ اعظم کے بعد ایک ریفارمر اور اعلیٰ سیاسی بصیرت کے حامل لیڈر کے طور پر سامنے آئے جنکی صلاحیتوں کا اعتراف دنیا کے بڑے بڑے سیاسی لیڈر اور دانشور بھی کرتے تھے۔ جب انہوں نے 1967میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تو ان کا ایک نیا ’’جنم ‘‘ ہوا جس میں وہ ایک ایسے قوم پرست سیاستدان کے طور پر سامنے آئے جنہوں نے سیاست کو ڈرائنگ روم سے نکال کر گلی کوچوں میں پہنچادیا۔ پہلی مرتبہ مظلوم طبقوں کو انکی اہمیت کا احساس دلایا ۔ اور یوں وہ پہلے ’’ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ‘‘ لیڈر کے طور پر ابھرے جنہوں نے بعد میں عوامی حقوق کی خاطر اپنی جان قربان کردی ۔ لیکن نہ تو معافی مانگ کر ملک سے باہر گئے اور نہ ہی اپنی سزائے موت کے بعد فوجی ڈکٹیٹر کے آگے سرجھکایا ۔ یوں وہ پاکستانی تاریخ کے ایک لیجنڈ اور بہادر لیڈر کے رتبے پر سرفراز ہوئے ۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے وہ صرف پیپلز پارٹی کے ہی نہیں بلکہ ایک غیر متنازع قومی لیڈر کے طور پر تاریخ میں اپنی جگہ بنا رہے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے بہادری سے قیدو بند کی صعوبتیں ہی برداشت نہیں کیں بلکہ تختہ دار پر بھی جُھول گئے ۔ تاہم یہ انہی کا کارنامہ ہے کہ انہوں نے پاکستان کو پہلا متفقہ قومی آئین دیا۔ اس کے ایٹمی پروگرام کا آغاز کیا۔ جو انکے اقتدار اور زندگی کے خاتمے کا باعث بنا۔ اسلامی سربراہی کانفرنس کے ذریعے پاکستان کو عالم ِ اسلام کا لیڈر بنایا۔ محنت کش طبقوں ، طالب علموں اور کسانوں کے حقوق کیلئےاصلاحات کیں۔ ان کے بعد انکی صاحبزادی بی بی شہید نے اپنی نوجوانی کے زمانے سے جمہوریت کی بحالی کی خاطر جو اذیّتیں سہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ آج ان کے سیاسی مخالف بھی عزّت و احترام سے ان کا نام لیتے ہیں۔ کیا پاکستان کا کوئی سیاسی خاندان اتنی قربانیوں کی نظیر پیش کر سکتا ہے۔ جتنی بھٹو خاندا ن نے دیں۔ جناب آصف علی زرداری نے اپنی جوانی کے چودہ سال قید و بند کی صعوبتوں میںگزار دئیے ۔ لیکن کوئی ظلم بھی انکے ہونٹوں کی مسکراہٹ نہ چھین سکا۔ اسی آصف زرداری نے نہ صرف 18ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو ان کے حقوق واپس دلائے بلکہ اپنے تمام صدارتی اختیارات بھی پارلیمنٹ کے حوالے کردئیے ۔ آج پارٹی کے نوجوان لیڈر بلاول بھٹو زرداری اپنے نانا ، والدہ اور والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے پاکستان میں جمہوریت ، رواداری اور مفاہمت کیلئے جس تحمل اور بردباری سے کوششیں کر رہے ہیں۔ اس سے یہ امید یقین میں تبدیل ہو رہی ہے کہ ہماری نئی نسل کا یہ سیاستدان ہمارے موجودہ سیاستدانوں کی نسبت زیادہ مہذب اور پختہ کار ثابت ہوگا نیزیہ کہ مسلم لیگ کو تو زندہ رکھنے کیلئے ہمیشہ آکسیجن سلنڈر فراہم کیے گئے ہیں لیکن بھٹو کی پارٹی آج بھی عوامی حمایت کے بل بوتے پر قائم اور زندہ سلامت ہے۔ حالانکہ اس کے راستے میں ہمیشہ کانٹے بچھائے گئے ہیں۔

تازہ ترین