’’فلسطین‘‘، جسے انبیائے کرامؑ کی سرزمین اور اہلِ ایمان کے قبلۂ اوّل (بیت المقدس) ہونے کے سبب اسلام میں انتہائی تقدّس اور ادب و احترام حاصل ہے، ہمارے دینی اور ملّی وجود کا جزوِلازم، جرأت و شجاعت، عزیمت و استقامت، دلیری و زندہ دلی کا استعارہ، جذبۂ حرّیت و فدائیت کی ایک مسلسل اور ناقابلِ فراموش تاریخ اور مسلمانوں کے مزاحمتی ادب کا ایک زندہ و تابندہ موضوع ہے۔
بیسویں صدی کے بین الاقوامی اور بالخصوص دنیائے اسلام کے سیاسی مسائل میں مسئلۂ فلسطین بنیادی اہمیت رکھتا ہے، اوراسی اہم مسئلے نے اسلامی تشخّص کی بنیادوں کو دعوتِ مقابلہ دی۔ یہ مسئلہ بیسویں صدی عیسوی کے ربعِ اوّل میں اُس وقت اُبھرا، جب ملّتِ اسلامیہ کا زوال اپنی انتہا پر تھا۔ دنیائے اسلام کی سب سے بڑی اور مستحکم مملکت، سلطنتِ عثمانیہ مغربی طاقتوں کے نرغے میں گِھری ہوئی تھی۔ 1922ء میں ’’خلافتِ عثمانیہ‘‘ ختم ہوگئی اور اس کے ساتھ دنیائے اسلام کی مرکزی اساس پر بھی کاری ضرب پڑی۔
چناں چہ اسلامی ادب کی کوئی بھی نوع، سخن وَری کی کوئی بھی صنف ہو، مزاحمتی ادب کا کوئی عہد، کوئی اسلوب یا کوئی زمانہ ہو، ’’مسئلۂ فلسطین‘‘ ہردَور، ہر عہد میں اہم موضوع بن کر سامنے آیا۔ ہمارے ادب، بالخصوص مزاحمتی ادب میں دنیا کے ہر ہر گوشے کے شعراء اور سخن وَروں نے مسئلۂ فلسطین اور مجاہدینِ فلسطین پربہت کچھ کہا، بہت کچھ لکھا۔ عربی، اردو، فارسی، انگریزی اور دنیا کی مختلف زبانوں میں نثر اور نظم ہر دو اصنافِ سخن میں اس اہم، سلگتے ہوئے موضوع نے اپنا مقام اور جگہ پائی۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ مذہبی زعماء اور شعراء ہر دَور اور ہر عہد میں مزاحتمی تحریکوں اور مزاحمتی ادب میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، بالخصوص شعراء اپنی زبان و بیان کے اظہار میں انتہائی اختصار، جامعیت اور اثر انگیزی کے ساتھ وہ کچھ کہہ جاتے ہیں، جو نام وَر خطیب، شعلہ بیان مقرر اور فکر انگیز اہلِ علم و دانش بھی نہیں کہہ پاتے، یا اُس کا وہ اثر نہیں ہو پاتا، جو شعراء اپنی سخن وَری سے حاصل کرلیتے ہیں۔
اسلامی تاریخ کے اوراق میں جابجا ہمیں اس کی ترجمانی نظر آتی ہے۔ چناں چہ غزوۂ بدر، غزوۂ اُحد، غزوئہ احزاب اور فتحِ مکّہ سے آج تک اسلامی تاریخ کے ہرعہد اور ہر نازک موڑ پر شعراء نے جذبات کی بے داری میں ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا۔
اردو کے مزاحمتی ادب میں جہاں بےشمار معروف و غیر معروف شعراء نے بذریعہ شاعری اپنے افکار و خیالات کی ترجمانی کی، وہاں دونام خاص طور پر بہت نمایاں ہوکر سامنے آئے، جن میں ایک شاعرِ مشرق، مفکّرِ ملّت، مصوّرِ پاکستان علاّمہ محمّد اقبال کا نام ہے، تو دوسرا مزاحمتی ادب کے علم بردار فیض احمد فیض کا نام۔ فیض احمد فیض نے مسئلہ فلسطین اور مظلوم فلسطینیوں کے حوالے سے کئی فکر انگیز نظمیں کہیں، جن میں اپنے جذبات و احساسات کا بھرپوراظہار کیا۔
یہاں تک کہ اِس کلام نے عالمی مزاحمتی ادب میں جگہ پائی۔ جدید شاعری کے پس منظر میں فیض کی شاعری کی معنویت ومفہومیت کا جائزہ لیا جائے، تو بعض دل چسپ حقائق سامنے آتے ہیں۔ اوّل یہ کہ ادبی تاریخ میں ہر نیا دَور ایک جداگانہ اورمنفرد شعری مزاج کا حامل ہوتا ہے، اس لیے ہر نئے دور کےتقاضے بھی الگ ہوتے ہیں۔ اقبال بیسویں صدی کے آغاز میں سامنے آئے، تو اُس دَور کے فکری، تہذیبی، سیاسی اور سماجی تغیّرات سے ان کے ذہن و فکر کی تعمیر ہوئی اور وہ پورے دَور کی ایک نمائندہ آواز بن گئے۔ مگر 1935ء کے بعد اُردو کی ادبی تاریخ میں جس مقصدیت سے بھرپور دَور کا آغاز ہوا، فیض اُس کی مؤثر نمائندگی کرتے ہیں۔
انہوں نے اپنے عہد کے ہرانقلاب کو پوری طاقت سے محسوس کیا، علاوہ ازیں، اس دَور کے سیاسی اور سماجی حالات کی پیچیدگیاں اُن کے لیے شعری محرّکات بنیں۔ اورفیض کے اِسی انداز نے مزاحمتی اسلوب و مزاحمتی ادب میں اہم اورتاریخ ساز کردار ادا کیا۔ ان کے اس اسلوب اور رویّےکوانسانی درد مندی کے رویّے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ یہ وہ رویّہ ہے، جو اُنہیں ہر آنے والے دَور کے لیے قابلِ قبول بناتا ہے۔ اُن کی شاعری میں انسانی ضمیر کی آواز سنائی دیتی ہے اوراُن کے نزدیک حق و صداقت اور خیرکی ازلی قوّتیں ہمیشہ فتح و نصرت سے ہم کنار ہوتی ہیں۔ اور زندگی سے متعلق یہ مثبت و تعمیری رویّہ اُن کی شخصیت کی گہرائیوں سے اجاگر ہوتا ہے۔
فیض کے کلام میں ظلم و استعماریت کے لیے پنجۂ عدو، بازوئے قاتل، خزاں، پنجۂ صیاد، ستم گر، لشکرِاغیار واعدّاء، مقتل، قتل گاہیں وغیرہ جیسے زندہ استعارے ہیں۔15 جون 1983ء کو فیض نے مسئلۂ فلسطین اور مجاہدینِ فلسطین کے جذبۂ جہاد اور حرّیت پسندی کے حوالے سے بیروت میں ’’ایک ترانہ، مجاہدینِ فلسطین کے لیے‘‘ کے عنوان سے ایک مشہور نظم کہی، جسے بعدازاں فلسطین کے حوالے سے لکھے جانے والے مزاحمتی ادب میں نمایاں مقام حاصل ہوا۔ فیض نے اپنی اس نظم میں کہا ؎ ہم جیتیں گے…حقّا ہم اِک دن جیتیں گے… بالآخراِک دن جیتیں گے…کیا خوفِ زِ یلغار اعدّاء…ہے سینہ سپر ہرغازی کا…کیا خوف زِ یورش جیشِ قضا…صف بستہ ہیں ارواح الشہداء…ڈر کاہے کا…ہم جیتیں گے…حقّا ہم جیتیں گے…قد جاء الحق و زھق الباطل… فرمودۂ ربِ اکبر…ہے جنّت اپنے پائوں تلے.....اور سایۂ رحمت سر پر ہے…پھر کیا ڈر ہے…ہم جیتیں گے…حقّا ہم اِک دن جیتیں گے…بالآخر اِک دن جیتیں گے۔
صیہونی مظالم کے خلاف فلسطینی مجاہدین کے نالہ و فریاد کی ترجمان، فیض احمد فیض کی یہ نظم مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ ایک اظہارِ یک جہتی، ایک صدائے احتجاج ہے۔ تب ہی اس تاریخی نظم کو مسئلۂ فلسطین کے تناظر میں تخلیق پانے والے مزاحمتی ادب اور شاعری میں اہم مقام حاصل ہے۔ فیض کی اس نظم کو اس تناظرمیں بھی دیکھناچاہیے کہ تاریخِ انسانی کا وہ دَوراسرائیلی جارحیت، صیہونی مظالم اور وحشت و دہشت کے حوالے سے خاص شہرت رکھتا ہے۔ تب مسئلۂ فلسطین عالمی توجّہ کا مرکز تھا، امّتِ مسلمہ،اسرائیلی مظالم کے خلاف سراپا احتجاج تھی، سخت صدائے احتجاج بلند کر رہی تھی۔
دوسری جانب قابض اسرائیلی، فلسطینی مسلمان مَردوں، عورتوں، معصوم بچّوں اور بزرگوں کا بے دریغ قتلِ عام کررہے تھے۔ ’’صابرہ اور شتیلا‘‘ میں ستمبر 1982ء میں ہونے والا قتلِ عام فلسطینی مسلمانوں پر وحشت ناک مظالم اور اسرائیلی درندگی کا سیاہ ترین باب ہے۔ صرف 16 اور 18 ستمبر کے درمیان کم و بیش 3500 فلسطینی مسلمانوں کو ذبح کیا گیا۔ ایک برطانوی لیڈی ڈاکٹر کے مشاہدے اور بیان کے مطابق، جو اُس وقت بیروت میں تھی، ’’مظلوم فلسطینیوں کو قتلِ عام سے قبل بدترین مظالم اور شدید تشدّد کا نشانہ بنایا گیا، اُنہیں وحشیانہ طریقے سے مارا پیٹا گیا، ان کے بازوئوں اور ٹانگوں کے درمیان بجلی کی تاریں باندھی گئیں، اُن کی آنکھیں نکال دی گئیں، قتل سے پہلے خواتین کی عصمت دری، اجتماعی آبروریزی کی گئی اور معصوم بچّوں کو بارود سے زندہ اُڑا دیا گیا۔‘‘
لبنان کے اسپتالوں اور پولیس ریکارڈ کے مطابق 4 جون تا 31؍ اگست 1982ء، 17835 فلسطینی مسلمان اسرائیلی بم باری سے شہید ہوئے، جب کہ فلسطینی ذرائع کے مطابق 83دنوں کے محاصرے میں 70ہزار لبنانیوں اور فلسطینیوں کو شہید کر دیا گیا۔ ایسے میں فیض کی یہ نظم ’’ایک ترانہ، مجاہدینِ فلسطین کے لیے‘‘ گویا کلمۂ حق ہے، جو انہوں نے پوری جرأت و استقامت سے بلند کیا۔ یہ وہ صدائے احتجاج ہے، جو انہوں نے اپنے ضمیر کی آواز پر بلند کی۔ اس میں فلسطینی مسلمانوں کے لیے فتح کی بشارت ہے، جو اِن شاء اللہ اُنھیں ایک دن ضرور حاصل ہوگی۔
پھرمشہورعرب، اسرائیل جنگ کے بعد فیض احمد فیض نے ’’سرِوادیٔ سینا‘‘ کے عنوان سے بھی ایک یادگار نظم کہی ؎ پھر برق فروزاں ہے سرِوادیٔ سینا.....پھر رنگ پہ ہے شعلۂ رخسارِ حقیقت.....پیغامِ اجل دعوتِ دیدارِ حقیقت.....اے دیدۂ بینا.....اب وقت ہے دیدار کا، دَم ہے کہ نہیں ہے.....اب قاتلِ جاں چارہ گرِ کلفتِ غم ہے.....گل زارِ ارم پَرتوِ صحرائے عدم ہے.....پندارِ جنوں.....حوصلۂ راہِ عدم ہے کہ نہیں ہے.....پھر برق فروزاں ہے سرِوادیٔ سینا.....اے دیدۂ بینا.....پھر دل کو مصفّا کرو، اس لوح پہ شاید.....مابینِ من و تُو،نیا پیماں کوئی اُترے.....اب رسمِ ستم حکمتِ خاصانِ زمیں ہے.....تائیدِ ستم مصلحتِ مفتیٔ دیں ہے.....اب صدیوں کے اقرارِ اطاعت کو بدلنے.....لازم ہے کہ انکار کا فرماں کوئی اُترے۔
علاوہ ازیں، فیض نے فلسطین کے حوالے سے دو مشہور نظمیں۔ ’’فلسطینی شہداء، جو پردیس میں کام آئے‘‘ اور’’فلسطینی بچّے کے لیے لوری‘‘ بھی کہیں، جو بے حد مقبول ہوئیں۔ فیض نے یہ دونوں نظمیں 1980ء میں بیروت میں قیام کے دوران لکھیں، جو بعدازاں عوام میں مقبول اور زبانِ زدِعام ہوئیں۔ اپنی نظم ’’فلسطینی شہداء، جو پردیس میں کام آئے‘‘ میں فیض نے فلسطینی مجاہدین کوخراجِ عقیدت پیش کیا اور اپنے قلبی احساسات کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا ؎ مَیں جہاں پر بھی گیا ارضِ وطن.....تیری تذلیل کے داغوں کی جلن دل میں لیے.....تری حُرمت کے چراغوں کی لگن دل میں لیے.....تیری الفت، تری یادوں کی کسک ساتھ گئی.....تیرے نارنج شگوفوں کی مہک ساتھ گئی.....سارے اَن دیکھے رفیقوں کا جَلو ساتھ رہا.....کتنے ہاتھوں سے ہم آغوش مِرا ہاتھ رہا.....دُور پردیس کی بےمہر گزرگاہوں میں.....اجنبی شہر کی بے نام و نشاں راہوں میں.....جس زمیں پر بھی کُھلا، میرے لہو کا پرچم.....لہلہاتا ہے وہاں، ارضِ فلسطین کا علَم.....تیرے اعدّاء نے کیا ایک فلسطیں برباد.....میرے زخموں نے کیے کتنے فلسطیں آباد۔
جب کہ اپنی دوسری نظم ’’فلسطینی بچّے کے لیے لوری‘‘ میں فیض نے مظلوم فلسطینی بچّوں کے نالہ و فریاد کی ترجمانی اور ہم دردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ؎ مت رو بچّے.....رو رو کے ابھی.....تیری امّی کی آنکھ لگی ہے.....مت رو بچّے.....کچھ ہی پہلے.....تیرے ابّا نے.....اپنے غم سے رخصت لی ہے.....مت رو بچّے.....تیرا بھائی.....اپنے خواب کی تتلی پیچھے.....دُور کہیں پردیس گیا ہے.....مت رو بچّے.....تیری باجی کا.....ڈولا پرائے دیس گیا ہے.....مت رو بچّے..... تیرے آنگن میں.....مُردہ سورج نہلا کے گئے ہیں..... چندرما دفنا کے گئے ہیں.....مت رو بچّے.....امّی، ابّا، باجی، بھائی.....چاند اور سورج.....تُو گر روئے گا تو یہ سب.....اور بھی تجھ کو رلوائیں گے.....تو مُسکائے گا تو شاید.....سارے ایک دن بھیس بدل کر.....تجھ سے کھیلنے لوٹ آئیں گے۔
فیض کی ان شاہ کار، تاریخی نظموں میں مسئلہ فلسطین، فلسطینی مسلمانوں پر ہونے والے بدترین مظالم اور اُن کے احساسات کی ترجمانی پورے طور پر کی گئی ہے۔ تب ہی اردو کے مزاحمتی ادب میں فیض کی ان نظموں کو اہم اور کلیدی مقام حاصل ہے۔ ان نظموں کے سبب فلسطین کی عظمت واہمیت،حسّاسیت، فلسطینیوں پراسرائیل کی بدترین جارحیت، وحشت و درندگی، سفّاکی اوربہیمانہ مظالم کواجاگر کرنے میں بڑی مدد ملی۔
دراصل فیض نے اپنی ان یادگار نظموں کے ذریعے فلسطینی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی ترجمانی پوری جرأتِ اظہار کے ساتھ کرکے انسانیت کے مُردہ ضمیر کو جگانے، خوابیدہ احساسات بےدار کرنے اور عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی بھرپور سعی کی۔ بلاشبہ یہ نظمیں مسئلہ فلسطین کے آخری، حتمی حل تک پوری دنیا، بالخصوص امّتِ مسلمہ کے لیے ایک تازیانے کا کردار ادا کرتی رہیں گی۔ کیوں کہ فلسطین اور ارضِ مقدّس ہمارا قبلۂ اوّل اورمظلوم فلسطینی مسلمان ہمارے قلب و جگر اور دست و بازو ہیں، جنہیں کبھی اور کسی لمحے، تاریخ کے کسی دَور اور کسی عہد میں فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ تاوقتیکہ انھیں اُن کا سو فی صد جائز حق نہیں مل جاتا۔