پاکستان کے خلاف دہشت گردوں کی کارروائیاں نئی نہیں ہیں ۔ دہشت گرد پاکستان کی سلامتی پر کاری ضرب کی راہ میں پاک فوج کو سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ اس دہشت گردی میں ہمارے 80 ہزار سے زیادہ شہریوں بشمول سکیورٹی اہلکاروں کی شہادتیں ہو چکی ہیں۔ معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان الگ سے پہنچ چکا ہے۔ پاک فوج اور سکیورٹی اداروں کی ملکی بقا کی خاطر قربانیاں ناقابل فراموش ہیں اور یہ پیغام دےرہی ہیں کہ ملک میں امن و امان کو یقینی بنانے کیلئے وہ ہر لمحہ مستعد ہیں۔ حالیہ چند ہفتوں کے دوران بالخصوص خیبر پختون خوا میں دہشتگردی کی نئی لہر آئی ہے تا زہ واقعات میں شمالی و جنوبی وزیرستان اور باجوڑ میں چار بم دھماکوں میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت 7افراد شہید اور 5زخمی ہوئے۔ رزمک میں سکیورٹی فورسز کے قافلے کو نشانہ بنایا گیا جس میں لانس نائیک احسان بادشاہ اور لانس نائیک ساجد حسین نے جام شہادت نوش کیا۔ سکیورٹی فورسز علاقے میں موجود کسی بھی دہشت گرد کے خاتمے کیلئے کارروائی کر رہی ہیں۔ ضلع خیبر میں پولیس چیک پوسٹ پر حملہ کے دوران ایک اہلکار شہید ہوا۔ وانا میں ہونے والے بم دھماکہ میں قبائلی سردار اسلم نور اور ان کے بیٹوں سمیت چار افراد جان کی بازی ہار گئے۔ اسلم نور صدارتی ایوارڈ یافتہ تھے۔ باجوڑ میں پہلے سے نصب شدہ بارودی مواد کے دو الگ الگ دھماکوں میں دو شہری جاں بحق ہو گئے۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز دہشتگردی کی لعنت کو ختم کرنے کے لئے پرعزم ہیں۔ خیبر پختونخوا میں ایک سال کے دوران دہشتگردی کے ساڑھے چھ سو سے زیادہ واقعات پیش آئے ہیں۔ پاک فوج کی جانب سے خیبر پختونخوا پولیس کی استعداد کار بڑھانے کیلئے خصوصی اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ مختلف مراحل میں 23ہزار 792 اہلکاروں کو جدید تقاضوں کے مطابق تربیت دی گئی ہے تا کہ تمام سکیورٹی ادارے مل کر دہشتگردی کے ناسور کو مکمل ختم کر سکیں۔ یہ اقدام قابل ستائش ہے تا ہم دہشتگردی میں ازسر نو اضافے کے اسباب کا تعین اور تدارک ضروری ہو گیا ہے۔