• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

یوں تو مَیں نے بچپن سے نوجوانی تک بہت سی سہیلیاں بنائیں، جن سے خلوص و محبّت کا رشتہ رہا، لیکن میری بچپن کی سہیلی، عائشہ سے مجھے ایک خاص ہی اُنسیت اور محبّت تھی، وہ بہت ہی پُرخلوص، سنجیدہ طبیعت کی مالک، سلجھی ہوئی لڑکی تھی۔ امیر فیملی سے تعلق رکھنے کے باوجود اُس میں غرور نام کو بھی نہ تھا۔ ہم لوگ ہرسال چھٹیاں منانے اپنی نانی کے گھر پنجاب جاتے، تو آپس میں خوب کھیلتے، مزے کرتے، کیوں کہ اُس کا گھر میری نانی کے گھر کے قریب ہی تھا۔ وہ روز ٹیوشن پڑھنے میری خالہ کے گھر آتی تھی۔ وہ ہم بہن بھائیوں سے اس طرح گھل مل گئی تھی کہ ٹیوشن سے چھٹّی ہوجانے کے باوجود اس کا واپس جانے کو دل نہیں کرتا تھا۔

اس کے والد علاقے کے کائونسلر تھے، جب کہ ہمارا تعلق ایک مڈل کلاس فیملی سے تھا، لیکن اس طبقاتی فرق کو اس نے کبھی محسوس نہیں ہونے دیا۔ خیر، بچپن بِیتا اورہم کالج میں آگئے، تو اتفاق دیکھیں، عائشہ نے اُسی کالج کا انتخاب کیا، جس میں میری خالہ پڑھاتی تھیں، تواس طرح خالہ سے اکثر اُس کی خیر خیریت معلوم ہوجاتی۔ پھر کچھ عرصے بعد ہماری نانی کا انتقال ہوگیا۔ خالہ کی بھی شادی ہوگئی اور تمام ماموں بھی شادی کے بعد الگ الگ جگہ مقیم ہوئے، تو ہمارا پنجاب جانا بھی بہت کم ہوگیا۔ خود مَیں بھی اپنی تعلیم میں بہت مصروف ہوگئی۔

کافی عرصے بعد خالہ کے گھر جانا ہوا، تو ایک روز اچانک ہی اُس سے فون پر رابطہ ہوگیا، تو بچپن کے تمام مناظر نگاہوں کے سامنے آگئے۔ اُس روز فون پر ہم نے بہت دیر باتیں کیں۔ یہ جان کر مجھے بہت خوشی ہوئی کہ شادی کے بعد وہ کراچی منتقل ہوگئی ہے اور اُس کا ایک بیٹا بھی ہے۔ مَیں بھی کراچی ہی میں رہتی تھی، تو اس نے بہت اصرار کیا کہ کراچی پہنچ کر میرے گھر ضرور آنا۔ خالہ کے گھر سے واپس کراچی آئی، تو چند ہفتے بعد اپنے بھائی کے ساتھ اس کے گھر چلی گئی۔ مجھے دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئی، خُوب خاطر مدارات کی، لیکن اُس کی ساس بہت روکھے انداز سے ملیں۔ مَیں نے محسوس کیا کہ جیسے انھیں میرا آنا اچھا نہیں لگا۔ 

سسرال کا ماحول بھی عجیب سا تھا۔ یہ سب دیکھ کرمجھے بہت دُکھ ہوا۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی اوردو بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی۔ شروع ہی سے اس کے بہت لاڈ اُٹھائے گئے تھے، لیکن سسرال میں کوئی اس سے سیدھے منہ بات بھی نہیں کرتاتھا، شوہر کا رویّہ بھی بہت خراب تھا۔ خیر، کچھ دیر بیٹھنے کے بعد مَیں بوجھل دل سے اُٹھ کے جانے لگی تو اُس نے رسماً دوبارہ آنے کو کہا، تو مَیں نے مسکرا کر کہا کہ ’’جلد ہی میری شادی ہونے والی ہے، تم ضرور آنا۔‘‘ 

پھر مَیں نے اپنی شادی کے موقعے پر اسے مدعو کیا، تو بڑی مشکلوں سے اپنے شوہر کی منّت سماجت کرکے تھوڑی دیر کے لیے آئی۔ اُن دنوں کراچی کے حالات بہت خراب تھے۔ مَیں فون پراس کی خیر خیریت پوچھتی، تو اکثر یہی کہتی کہ ’’مَیں تو ہر وقت یہی دعا مانگتی ہوں کہ میرے شوہر کا تبادلہ پنجاب ہوجائے۔‘‘ اور پھر اس کی دعائیں رنگ لے آئیں اور اس کے شوہر کا پنجاب تبادلہ ہوگیا۔ اس کی والدہ نے اپنے گھر کے قریب ہی اُسے ایک گھر دلوادیا۔ پنجاب شفٹ ہونے سے چند روز قبل مَیں اُس سے ملنے گئی، تو وہ بہت خوش تھی۔ بار بار مجھے اپنے گھر آنے اور رابطہ برقرار رکھنے کو کہہ رہی تھی، لیکن مجھے کیا معلوم تھا کہ یہ میری اس سے آخری ملاقات ہے۔ 

ابھی اُسے پنجاب گئے کچھ ہی عرصہ ہوا تھا کہ ایک روز اچانک ہی اس کے انتقال کی خبر آگئی، یہ رُوح فرسا خبر سنتے ہی مَیں تو سُن ہوکررہ گئی۔ خالہ سے فون پر بات ہوئی، تو انھوں بتایا کہ ’’پنجاب شفٹ ہونے کے بعد بھی دونوں کی اکثر آپس میں ناچاقی رہتی تھی۔ ایک دن وہ سحری بنانے کے لیے باورچی خانے گئی اور جیسے ہی چولھا جلانے کے لیے ماچس جلائی، ایک دَم خوف ناک آگ بھڑک اُٹھی۔‘‘ اوریوں میری پیاری سہیلی عائشہ آناً فاناً اُس آگ کی لپیٹ میں آکر بُری طرح جھلس گئی۔ پھر چند روز موت و حیات کی کش مکش میں رہنے کے بعد خالقِ حقیقی سے جا ملی۔

لوگوں کا قیاس تو یہی ہے کہ گیس لیک ہونے سے آگ لگی، لیکن حقیقت تو اللہ ہی جانتا ہے۔ آج اس کی ناگہانی موت کو اکیس سال گزر چکے ہیں، لیکن مجھے اب تک یقین نہیں آتا۔ اللہ ربّ العزت میری بہن جیسی سہیلی کے درجات بلند فرمائے۔ (شہلا الیاس، کراچی)