• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اچھا لگا جب کسی نے "سویا ہوا محل" کے صدر دروازے پر نقارہ بجایا کہ ریاست کہتی ہے’مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘ گویا ریاست کا تقاضا ہے، اُٹھ اس معاشی بگاڑ کے دور میں اپنے دم سے بناؤ پیدا کر ، اس لئے کہ ففتھ انڈسٹریل نے تم سے خونِ جگر مانگ لیا ہے۔ اور ریاست یہ بھی کہتی ہے کہ بڑی موجیں مار لیں ، مہارتوں نے بڑے بہانے کر لئے، سیاستدانوں اور بیوروکریسی پر بہت الزام دھر لئے ، اب اپنا لوہا منوا اور اپنا آپ بھی دکھا !

ففتھ انڈسٹریل ریولیوشن کی بات کرنے سے قبل دو باتیں عرض کرنا ضروری ہے۔ 1۔ ففتھ انڈسٹریل ریولیوشن کیا بلا ہے اور اس سے پہلے چار صنعتی انقلاب کیا تھے۔ 2۔ صنعت کاری کا ذکر چھیڑیں تو سیاسی قیادت، یونیورسٹیوں، بیوروکریسی اور عوام سے بیک وقت مخاطب ہونا پڑے گا کہ چاروں ریاست کے بڑے اسٹیک ہولڈرز ہیں :سن 1760 میں برطانیہ میں باقاعدہ انڈسٹریل سیٹ اپ کا آغاز ہوتا ہے کہ ان کے پاس کالونی اجارہ داری تھی سو جہاں سے را میٹیریل منگوایا جا سکتا تھا اور پروڈکٹس بیچنے کیلئے بھیجی جا سکتی تھیں۔ بعد ازاں 1807 میں بلجیم اور کم و بیش 1848 میں فرانس تک جا پہنچتا ہے۔ اس کے بعد 1870 سے جرمنی جاگ جاتا ہے اور تیزی سے آگے بڑھتا ہے گویا اٹھارویں صدی کے اختتام اور انیسویں صدی کے آغاز میں امریکہ بھی اس دوڑ کا حصہ بنتا ہے، اور پھر جاپان بھی...کہا جاسکتا ہے پہلا صنعتی انقلاب 1760 کے لگ بھگ برطانیہ میں جڑپکڑتا ہے جسے میکانائزیشن آف انڈسٹری کہنا غلط نہ ہوگا۔ کوئلہ و لوہا اہم ہو جاتے ہیں اور ٹرانسپورٹ سسٹم کی بہتری کیلئے پر تولے جانے لگے... ایک مدت کے بعد انیسویں صدی دوسرے صنعتی انقلاب کو جنم دیتی ہے جسے ہم الیکٹریفکیشن ریولیوشن کا نام دے سکتے ہیں۔ اب آتی ہے ماضی قریب کی بات یعنی 1980 کی، یہاں الیکٹرک ٹو الیکٹرانک منتقلی کا دور وجود میں آتا ہے، کمپیوٹر کی آمد جمال کو جنم دیتی ہے، اور یہ کہلاتا ہے تیسرا صنعتی انقلاب مع نام الیکٹرک ٹو الیکٹرانک ٹرانسفارمیشن۔ تقریباً تیس برس بعد ہی، یعنی اب بات صدیوں سے دہائیوں میں بدلی اور آٹومیشن کے سنگ سنگ ڈیجیٹل چاشنی اور مسرت نے بھی جدتوں کے حسن و جمال کو کمال کیا۔ روبوٹس کے زمانے نے آ دستک دی،ا سمارٹ مشینیں آگئیں، سائبر فزیکل سسٹم نے دھوم مچائی، یوں سائبر تھریٹ بھی آ دھمکے... پھر آتا ہے پانچویں صنعتی انقلاب کا دور کیونکہ سائبر تھریٹ اور سائبر کرائم کے آگے بند باندھنا لازم تھا، علاوہ بریں روبوٹ اور انسان کے بیچ میں ربط کو منظم کرنے کے تناظر میں کوبوٹ ٹیکنالوجی کو تقویت ملی اور 2022 میں ففتھ انڈسٹریل ریولیوشن کا مطلب ٹھہرا آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا قیام و دوام، لرننگ ہی ارننگ، پروڈکشن کی قابلِ دید عمدگی اور مارکیٹنگ کے مابین گہرا رشتہ ، پرکشش اور سہولت ساز و لچکدار بزنس ماڈل، پائیدار پراڈکٹس ، مستدیری معیشت (سرکلر اکانومی) یعنی معاشرتی دوست و ماحولیاتی دوست سسٹم معیشت جس میں استعمال اور خام مال و پیداوار میں توازن ہو !

سوال یہ ہے کہ ایک متوازن جمہوری نظام کے بغیر صنعتیں عمدگی کو رواج اور یونیورسٹیاں انڈسٹریل لنکس ، جدتیں، پیداوار اورپالیسی سازی کا معیار دے سکتی ہیں اور ایجادات، انکشافات یا دریافتوں کا بول بالا کر سکتی ہیں؟ اس کا جواب آصف علی زرداری و پیپلزپارٹی کو سب سے پہلے دینا ہوگا۔ انہوں نے تھر کول کی شاہراہ پر تھرپارکر ایکوسسٹم کو کامرانی دی ، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ پراجیکٹ کو استعمال میں لائے، این آئی سی وی ڈی ، گمبٹ لیور و کڈنی ٹرانسپلانٹ جیسے معرکوں کو سب سے پہلے پاکستان میں متعارف کرایا ۔ لہٰذا انہی سے عرض ہے کہ اٹھارویں ترمیم پر یقین رکھنے والے ، صوبائی خود مختاری کی موجودگی اور محدود خطہ رکھنے کے تناظر میں ، اور حالیہ سروے اور تحقیق کی بنیاد پر بہتر ترقیاتی اشارے پانے کی بدولت اس ففتھ انڈسٹریل ریولیوشن کو اپنی بےشمار نئی بننے والی یونیورسٹیوں اور کراچی و حیدرآباد و سکھر کی صنعتوں کے مابین لنک کرنے کا سہرہ اپنے سر سجا کر دکھائیں۔ ( اللہ جانے الیکشن 2024 میں کون سندھ کی زمامِ اقتدار سنبھالے مگر پیپلزپارٹی بہرحال بنیادیں فراہم کر چکی اب آگے چلنا ہے، اور پرائیویٹ سیکٹر کے ساتھ سہل رفاقت بناکر چلنا ہوگا )۔یہ بھی مدنظر رہے کہ گلوبل ویلج کے ترقی یافتہ چھٹے صنعتی انقلاب پر بھی کام شروع ہو چکا۔ مانا کہ 80 فیصد بھارت ابھی تک 1980 کے تیسرے صنعتی انقلاب پر کھڑا ہے اور ہماری بچھی کھچی صنعت بھی۔ مشتری ہوشیار باش! اب جنریشن گیپ سمٹ چکا ہے۔

جہاں تک مسلم لیگ نواز کا تعلق ہے، اس کے حوالے سے تو میں بھی کہتا ہوں کہ انہیں اپنی انتخابی فتح کیلئے کسی عارضی یا سطحی سیاسی بیانیے کی ضرورت نہیں، ان کے ترقیاتی پراجیکٹس ان کا ماضی ہیں ، اور ففتھ انڈسٹریل ریولیوشن کو اگلے ترقیات اور اِنوویشن میں شامل کرنے کے علاوہ چھٹے صنعتی انقلاب پر سوچنا ان کا فرض ہو گا بصورتِ دیگر سب افسانے ہونگے۔ تحریکِ انصاف کے پاس دم تھا اور نوجوان بھی لیکن انہوں نے سیاسی و سماجی اِنوویشن کی کُلی صلاحیت کو استعمال کرنے کے بجائے سوتنوں کی لڑائی اور ماضی پیٹنے پر بہت وقت ضائع کر دیا تھا، اب انہیں سب سے جدید اور قابلِ عمل انتخابی منشور دینا چاہئے کہ گلشن کا کاروبار چلے۔

وہ جس نقارے کا تذکرہ آغاز میں ہوا وہ نقارہ ففتھ انڈسٹریل ریولیوشن یاد کرانےکیلئے بجایا گیا، اس ریولیوشن کی اذاں کے بعد خشوع و خضوع کی تمنا کرنیوالے پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ٹیم اور چیئرمین ڈاکٹر شاہد منیر ہیں۔ اس نے صنعتی انقلاب کا یہ نقارہ آل پنجاب یونیورسٹیز دوسری اِنوویشن ایکسپو کے موقع پر بجایا جو قابلِ تعریف اور دیگر کیلئے قابلِ تقلید ہے گر سیاسی و ہائیر ایجوکیشن لیڈر شپ، ٹیکنوکریٹس اور عوام جاگ جائیں...مگر افسوس کہ نگران وفاقی و صوبائی وزراء ریشمی لفاظی، صوفی ازم اور روحانیات ہی کے تقریری مقابلہ کیلئے آ ئے۔ انجینئر بلیغ الرحمٰن جیسے جہاندیدہ چانسلر و گورنر بھی سیاسی و انتخابی مقرر اور ماضی ہی میں پھنسے لگیں تو پھر نقارہ بجانے اور عملی نمونہ دکھانے میں ایچ ای سی پاکستان اور ملک بھر کی اعلیٰ تعلیمی ، سماجی، بالخصوص سیاسی قیادتوںاور انمول اثاثہ نوجوانوں ہی کو ہر صورت اپنا کردار ادا کرنا ہوگا کہ ملک کو سویا ہوا محل نہیں جگمگاتا و جاگتا اِنوویٹِو شبستان و گلستان درکار ہے!

تازہ ترین