عام انتخابات میں تاخیر کی خبریں ایک مرتبہ پھر اسلام آباد میں زیر گردش ہیں۔ انتخابات میں ابتدائی طور پر ایک ماہ تاخیر کی تجویز دی جارہی ہے۔خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے علاقوں میں سردی کی شدت کو جواز بنایا جارہا ہے۔رائے ہموار کی جارہی ہے کہ فروری کے پہلے ہفتے میں فاٹا اور بلوچستان کے بیشتر علاقوں نے برف کی چادر اوڑھ رکھی ہوگی۔ قوی امکان ہے کہ ان حلقوں کے لوگ عام انتخابات میں حصہ لینے سے محروم رہ جائیں ۔اس لئے عام انتخابات میں ایک ماہ کی مزید تاخیر کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔بہرحال اس سارے معاملے میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب سب سے بڑی رکاوٹ نظر آرہے ہیں۔اگر سیاسی جماعتوں کو آن بورڈ لے بھی لیا جائے ،تب بھی سپریم کورٹ انتخابات میں تاخیر کا راستہ دیتی ہوئی نظر نہیں آرہی۔بہرحال سیاسی جماعتوں کی اولین ترجیح فوری عام انتخابات کا انعقاد ہونا چاہئے لیکن بدقسمتی سے ابھی تک سیاسی جماعتوں کی ترجیحات میں یہ شامل نہیں ہے۔اسلام آباد میں اس قسم کی خبریںبھی گردش کررہی ہیں کہ نگران وزیراعظم میں بھی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔گو کہ آئینی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے ۔لیکن اگر نگران وزیراعظم کسی بھی وجہ سے مستعفی ہوجائے تو اپوزیشن لیڈر اورحزب اقتدار دوبارہ نئے نام الیکشن کمیشن کو بھیج سکتی ہے۔یوں نگران وزیراعلیٰ پنجاب مرکز میں آکر نگران وزیراعظم بن سکتے ہیں۔لیکن یہ سب مفروضوں پر مبنی باتیں ہیں۔اسلام آباد کے سنجیدوں حلقوں میںان سب باتوں کی بازگشت شدت سے سنائی دے رہی ہے۔تاہم ہم سب کو یاد رکھنا چاہئے کہ عام انتخابات میں تاخیر پاکستان کو ایک ایسی گلی میں دھکیلتی چلی جائے گی ،جس میں آگے کنواں اور پیچھے کھائی ہوگی۔ مسلم لیگ ن موجودہ حالات میں سب سے بڑی سیاسی اسٹیک ہولڈر ہے۔اس کی اپنی سیاسی بقا اسی میں ہے کہ بروقت عام انتخابات کرا دئیے جائیں۔عمران خان کی سزائوں اور بیلٹ پیپر پر بلے کے نشان کو جواز بنا کر عام انتخابات میں تاخیر ملک کیلئے بہت نقصان دہ ہوگی۔جتنی توانائی عام انتخابات میں مزید تاخیر لانے کیلئے صرف کی جائے گی،اگر اس کا پچاس فیصد بھی عام انتخابات کرانے پر خرچ کردی جائے تو اسٹیبلشمنٹ اپنی مرضی کے نتائج باآسانی حاصل کرسکتی ہے۔مسلم لیگ ن سمیت پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ اگر عام انتخابات میں مزید تاخیر کی تجویز سامنے لائی گئی تو اس کی وجہ موسم یا عمران خان کے خلاف زیر سماعت کیسز میں سزائیں نہیں ہوگی،بلکہ پھر یہ معاملہ بہت دورتک جائے گا۔پاکستان میں معاشی استحکام کیلئےاشد ضروری ہے کہ عام انتخابات کا فوری انعقاد کیا جائے۔عمران نیازی کی جو باتیںدن بدن سامنے آرہی ہیں۔اس میں اب کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ وہ کسی فتنے سے کم نہیں تھا۔لہٰذا فتنے کی سرکوبی کیلئےہر حد تک جانا چاہئے مگر عام انتخابا ت میں تاخیر کی قیمت پر فتنے کی سرکوبی کوئی دانشمندی نہیں ہوگی۔مسلم لیگ ن کو دیوار سے لگانے کیلئےگزشتہ چند سال کے دوران عمران خان کی ہر طرح کی جائز ،ناجائز مراد پوری کی گئی۔آج اگر ریاست اس سے نپٹنے کیلئےکسی بھی حد تک جاتی ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔البتہ یہ یاد رکھیں کہ ملک چلانا ان نگرانوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ملک ایک مستحکم منتخب حکومت ہی چلاسکتی ہے۔عین ممکن ہے کہ عام انتخابات مارچ یا اپریل میں کرنے کی تجویز پر مسلم لیگ ن راضی ہوجائے۔الیکشن کمیشن بھی جان بوجھ کر آنکھیں بند کرلے،سپریم کورٹ آف پاکستان بھی تھوڑی بہت ضد کے بعد مان جائے۔تاہم یا د رہے کہ عام انتخابات میں ہر دن کی تاخیر پاکستان کو بہت پیچھے لے جارہی ہے۔اگر عام انتخابات میںتاخیر کی گئی تو اس کا وہ ناقابل تلافی نقصان ہوگا ،جو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں۔ویسے تو اکتوبر ،نومبر عام انتخابات کیلئےبہترین مہینے تھے۔سانحہ نو مئی کے بعد پوری تحریک انصاف بلوں میں گھسی ہوئی تھی۔مگر پھر آپ نے فروری میں عام انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا۔یا د رکھیں کہ انتخابات جتنا آگے ہوتے جائیں گے،اس کا فائدہ مسلسل تحریک انصاف کو ہوگا۔کیونکہ طاقت کا ایک بھرم ہوتا ہے۔قانون فطرت ہے کہ لمبے عرصے تک طاقت کے بل بوتے پر معاملات کو کنٹرول نہیں کیا جاسکتا ۔جوں جوں انتخابات کے معاملات تاخیر کا شکار ہونگے،تحریک انصاف کی مضبوطی بڑھتی چلی جائے گی۔اگر کوئی شے تحریک انصاف کے فتنے سے نپٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے تو وہ پانچ سال کیلئےمنتخب ہونے والی حکومت کی بہترین کارکردگی ہے۔اگر مسلم لیگ ن اقتدار میں آتی ہے اور اسے نوازشریف کی قیادت میں پانچ سال کیلئے کام کرنے دیا جاتا ہے تو یا د رکھیں کہ نوازشریف میں یہ صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے کہ وہ اس مصنوعی مقبولیت کے غبارے میں سے ہوا نکال سکتا ہے۔وگرنہ اس وقت کوئی دوسری شے تحریک انصاف کا بندوبست نہیں کرسکتی۔ملک منتخب نمائندے چلاتے ہیں اور براہ کرم ملک منتخب نمائندوں کے حوالے کریں اور پھر انہیں پانچ سال تک بغیر کسی مداخلت کے کام کرنے دیں۔ ان شااللّٰہ بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔