• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاستدانوں میں اقتدار حاصل کرنے کی خواہش ایک فطری امر ہے ۔ کیونکہ اپنے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے اقتدار حاصل کرنا جمہوری عمل کا ایک حِصّہ ہے جسے تمام دنیا میں تسلیم کیا جاتا ہے۔ حصولِ اقتدار کے لیے سیاسی جماعت بنانا اور عوام میں اسے قابلِ قبول بنانے کے لیے اپنے پروگرام کی تشہیر کرنا بھی اسی زمرے میں آتا ہے ۔ لیکن اقتدار کے حصول کے لیے سازشیں اور ساز باز کرنا، دوسروں کی کردار کشی اور ایسی گرِ ی ہوئی حرکتیں کرنا جو اخلاقیات کے دائرے سے باہر ہوں ناجائز ہیں گویا ہر قیمت پر اقتدار حاصل کرنے کے لیے ہر طرح کے جائز ، ناجائز حربے استعمال کرنا حصولِ اقتدار کی خواہش سے زیادہ ہوسِ اقتدار کے زمرے میں آتا ہے جو مروجہ جمہوری اقدار کے منافی ہے ۔ جس کی ہر سطح پر مذّمت کی جانی چاہیے کیونکہ ملوکیت اور دیگر غیر جمہوری نظام ہائے سیاست میں یہی فرق ہے کہ جمہوریت میں عوامی پذیرائی کے علاوہ ہر قسم کے دیگر حربے اختیار کرنا غیر جمہوری اور غیر آئینی ہوتا ہے۔ جمہوریت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس نے اقتدار میں آنے کے دیگر تمام راستوں کو بند کردیا ہے۔ جسکی وجہ سے پر امن طریقے سے اقتدار کی منتقلی کو یقینی بنایا جاتا ہے ۔ جس سے معاشرے میں سیاسی استحکام آتا ہے۔ جو معاشی اور سماجی استحکام کا باعث بنتا ہے۔ غیر جمہوری نظاموں میں اقتدار کے حصول اور اسے برقرار رکھنے کے لیے صدیوں سے جو محلّاتی سازشیں اور قتل و غارت گری ہوتی رہی ، اس نے انسانی معاشرے کو ہمیشہ پسماندہ رکھّا کیونکہ حکمرانوں اور ان کے مخالفین کے درمیان تمام توانائیاں اسی مخاصمت کی نذر ہو جاتی تھیں اور معاشرتی ارتقاء کا سفر رُک جاتا تھا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جمہوریت کی وجہ سے گزشتہ ایک صدی میں جمہوری معاشروں نے سائنس ، ٹیکنالوجی اور معیشت کے علاوہ ہر شعبے میں بے مثال ترقی کی ہے کیونکہ جو توانائیاں حصولِ اقتدار کے لیے جائز و ناجائز حربے استعمال کرنے میں ضائع ہو جاتی تھیں انہیں ترقی کے عمل میں ڈھال دیا گیا۔ہماری پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جمہوریت کا نام لینے کے باوجود ہمارے ہاں جمہوری اقدار کی مسلسل پامالی کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے ۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ 76برس گزر جانے کے بعد بھی ابھی تک کسی منتخب وزیرِ اعظم نے اپنی مدّت مکمل نہیں کی ۔ جو ایک حیران کن عمل ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ شائد یہ بھی ہے کہ پہلے تو ’’ منتخب وزیرِ اعظم ‘‘ اور منتخب حکومت کے بارے میں ہمیشہ شکوک پائے جاتے ہیں۔

غیر سیاسی کرداروں کے سیاست میں عمل دخل نے ہمیشہ ہمارے جمہوری عمل پر سوالیہ نشانات ثبت کئے ہیں۔ لہٰذا اقتدار میں آنے والے کبھی پر اعتماد طریقے سے اپنے اقتدار کا عرصہ پورا نہیں کرپائے اور انہیں اقتدار میں آتے ہی اس بنا پر مخالف پارٹیوں کی مزاحمت کا سامنا کرنی پڑتی ہے کہ ان کا انتخاب دھاندلی کا مرہونِ منّت ہے۔ چنانچہ بہت جلد انکی توجہ ملکی ترقی سے ہٹ کر اپنے اقتدار کو بچانے پر مرکوز ہوجاتی ہے۔جو سیاسی عدم استحکام او ر معاشی تنزّلی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ اقتدار کے اس میوزیکل چیئر شو میں صرف طاقتوروں کیلئے لمبے اقتدار کی گنجائش نکلتی ہے جو آگے چل کر ملکی بقااور استحکام کیلئے بذاتِ خود خطرہ بن جاتا ہے۔ یوں اقتدار کے حصول کی خواہش ہوسِ اقتدار میں تبدیل ہو جاتی ہےاور معاشرہ آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے جانے لگتا ہے۔

یوں تو ہوسِ اقتدارکیلئے ہمارے ملک کے اکثر سیاستدانوں نے بے اصولی کی تمام حدیں پارکی ہیں۔ لیکن ان میں اُن طاقتوں کا عمل دخل زیادہ ہے جو اپنے ذاتی اور ادارہ جاتی مفادات کیلئے آئین کو موم کی ناک سمجھتے ہیں۔ اور اپنی کٹھ پتلیوں کو اقتدار میںلانےکیلئے اتنی تگ و دو کرتے ہیں کہ وہ کٹھ پتلیاں اس زعم میں مبتلا ہو جاتی ہیں کہ وہ ان طاقتوں کی مجبوری بن گئی ہیں۔چنانچہ ان میں آمرانہ خصائل پیدا ہوجاتے ہیںاور وہ جمہوریت کے نام پر جمہوریت کی بیخ کنی شروع کردیتی ہیں۔ اگر ہم اپنے ماضی قریب میں جھانکیں تو یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ پاکستان میں پیپلز پارٹی وہ واحد سیاسی جماعت ہے جس کے راستے میں اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ روڑے اٹکائے اور اسے اقتدار میں آنے سے روکا۔ کیونکہ پیپلز پارٹی نے جمہوری روایات کی بحالی کیلئے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت میں کوئی سیاسی قیدی نہیں تھا۔ میڈیا مکمل طور پر آزاد تھا صدرآصف علی زرداری نے 18ویں ترمیم کے ذریعے اپنے اختیارات پارلیمنٹ کودے دئیے اور صوبائی خود مختاری کو یقینی بنایا۔ جبکہ عمران خان نے طاقتور اداروں کی یقین دہانی کے باوجود اقتدار کے حصول کیلئے جادو ٹونے ،عملیات، ضعیف الاعتقادی اور آئین شکنی کے جو عمل کیے اور جن کا آج ہر طرف چرچا ہے وہ ہوسِ اقتدار کے زمرے میں آتے ہیں۔ ان میں کچھ واقعات ایسے ہیں جنہیں سن کر شرمندگی ہوتی ہے کہ ہم اکیسویں صدی میں رہتے ہوئے بھی دورِ جہالت سے باہر نہیں نکلے۔ اور دکھ کی سب بڑی بات تو یہ ہے کہ ہم نے پروپیگنڈے کی طاقت کو آگے بڑھنے کی بجائے اپنی پسماندگی کیلئے استعمال کیا۔ کیا ہم آئندہ بھی حصولِ اقتدار کو ہوسِ اقتدار میں تبدیل کرتے رہیں گے؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین