پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو بسا اوقات جلسوں میں 18ویں ترمیم سے متعلق خدشات کا اظہار کرتے ہوئے یہ تاثر دیتے ہیں کہ میاں صاحب کے اقتدارمیں آنے کی صورت میں گویا 18ویں ترمیم کو خطرہ لاحق ہوسکتاہے ۔ متفقہ طور پر منظور ہونے والی 18 ویں ترمیم میں ن لیگ کا کلیدی کردار تھا ،بنابریں بلاول بھٹو صاحب کا یہ خدشہ ایک سیاسی ایشو لگتاہے ۔ نگراں وزیراعظم کے گزشتہ روز اظہار خیال سے صاف عیاں ہےکہ 18 ویں ترمیم ملکی ترقی ویکجہتی کیلئے کس قدر پائیدار عوامل کی حامل ہے۔نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نےایک پروگرام میں جہاں بلوچستان میں گولڈ اور کاپرکے دریافت کی بات کی ہے ،وہاں یہ بھی کہا ہےکہ بلوچستان قدرتی وسائل سے مالامال صوبہ ہے۔ 18ویں ترمیم میں وفاق اور صوبوں میں تنازعات طے ہوچکے ہیں،بلوچستان میں کاپر اور گولڈ کی دریافت کے اثرات آنے والے دنوں میں سامنے آئیں گے،اگر یہ پہلے نکالے جاتے تو ہوسکتا ہے کہ اس کو خام مال کی شکل میں برآمد کردیتے لیکن اب ویلیو ایڈیشن کی طرف جائیں گے۔جہاں بلوچستان میں سوئی سے سونے تک قدرتی وسائل موجود ہیں،وہاں پختونخوا بھی قدرتی وسائل کے وسیع ذخائر کا صوبہ ہے۔ اس خطے میں گیس کے کس قدر وسیع ذخائر موجود ہیں ،اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتاہے کہ جولائی 2004میں شکردرہ کوہاٹ، جنوری 2005میں گرگری کرک اورجنوری 2006میں مکوڑی کرک کے آئل اینڈ گیس فیلڈسے صرف ایک ایک سال کے وقفے میں کمرشل پیداوار شروع ہوئی ، اس کے بعد سےیہ سلسلہ چل نکلاہے اورکوہاٹ ،کرک سمیت مختلف علاقوں میں مزید ذخائر دریافت ہوتے گئے۔ ایک عرصے تک گیس وتیل کے ان وسائل کو دانستہ زیر زمین رہنے دیا گیا۔ دوتین عشرے قبل اکثر ایسا ہوتا تھا کہ لوگ پانی کیلئے کنواں کھودتے تھے تو گیس کی موجودگی کی وجہ سے کام کرنے والے جاں بحق ہو جاتے تھے، حکام اس جانب توجہ دینے کی بجائے لوگوں کو مختلف توجیہات سے مطمئن کرنے کی کوشش کرتے، اب یہ تیل وگیس سطح زمین کے اس قدر اوپر آگئے ہیں کہ جہاں کھدائی کی گئی، کامیابی حاصل ہوئی اور تو اورجو کنویں پانی کیلئے کھودے جاتے ہیں ان میں سے بھی تیل نکل آتاہے۔جہاں تیل وگیس کے وسیع ذخائر صوبے وملک کی تقدیربدلنے کیلئے موجود ہیں، وہاں فلک بوس پہاڑوں کے دامن میں کوئلے کے خزانے اپنی موجودگی کا احساس دلارہے ہیں۔ ماربل ودیگرمعدنیات کے ساتھ ایٹمی سائنسدان ڈاکٹرثمر مبارک کے مطابق وزیرستان سمیت اس خطے میں سونے کے بھی وسیع ذخائرموجودہیں۔ صوبےمیں گیس کی پیداوار سرپلس میںہے، دوسر ےصوبوں کو اس کی ترسیل جاری ہے، صوبہ خیبر پختونخوا پاکستان میں پانی سے 65فیصدبجلی پیدا کرتاہے۔او جی ڈی سی کے مطابق اس ادارے نے صوبہ خیبر پختونخوا سے صرف 17برسوں میں 523ارب روپے کا تیل اور گیس نکالی ہے، خیبرپختونخوا میں گیس کے ذخائر 19ٹریلین معکب فٹ اور تیل کے ذخائر 600 ملین بیرل سے زائد ہیں،ان میں اضافہ ہورہاہے،تاہم جس برق رفتاری کی ضرورت ہے وہ ناپید ہے۔قابل افسوس امر یہ بھی ہے کہ خیبرپختونخواکے عوام اپنی دولت سے فائدہ اُٹھانے سے محروم ہیں۔ صوبہ بھر کی کیا بات کی جائے کہ جن علاقوں سے گیس نکلتی ہے وہاں بھی گیس کی اذیت ناک لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے اور پریشر کم رکھا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ اور سستی بجلی بنانے والے اس صوبے کا حال یہ ہےکہ یہاں سردیوں میں بھی 24گھنٹوں میں بہ مشکل دس گھنٹے بجلی دستیاب ہوتی ہے۔ دوسری طرف آئین کےآرٹیکل 161کی شق( ایک) کے مطابق اس صوبے کو رائلٹی سے بھی محروم رکھا جارہاہے بجلی کی رائلٹی کی مد میں وفاق اس وقت صوبہ پختونخوا کا اربوں کا مقروض ہے، خیبر پختونخوامیں جب تحریک انصاف کی حکومت بنی تھی تو عمران خان صاحب نے وعدہ کیا تھاکہ مرکز میں آکر وہ خیبر پختونخواکا ایک ایک پیسہ وفاق سے وصول کرینگے لیکن وہ یہ وعدہ ایفا نہ کرسکے۔ تمباکو کی پیداوار پر خیبر پختونخوا وفاق کو اربوں روپے سالانہ ٹیکس کی مدمیں دیتاہے۔ دیگر معدنیا ت اپنی جگہ، مگرجس تیزی سے اس صوبے میں گیس وتیل کے ذخائر دریافت ہورہےہیں، اس سے لگتاہے کہ ملک بہت جلد خودکفیل ہوجائیگا ۔ سوال مگر یہ ہے کہ اب تک تیل وگیس اوربجلی سمیت دیگر معدنیات کے فوائدسے جس طرح یہاں کے عوام محروم ہیں، کیا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہےگا یا آئین بھی روبہ عمل ہوسکے گا!