1979ء میں انقلاب ایران آیا، اس زمانے میں اخبارات کا بڑا چرچا تھا جب شاہ چلا گیا تو ایرانی اخبارات کی شہ سرخی تھی ’’شاہ رفت‘‘۔ اخبارات لے کر چند صحافی امام خمینی ؒکے پاس پہنچے تو انہوں نے کہا ’’اللہ اکبر‘‘ اگلے دن تمام ایرانی اخبارات کی سرخی تھی "اللہ اکبر"۔ شاہ ایران کو امریکہ، مغرب اور اپنی فوج پر بڑا فخر تھا۔ اس نے فوج کے ذریعے انقلاب کا راستہ روکنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر بے سود۔ اس نے فوج کے ذریعے قتل و غارت سے بھی گریز نہ کیا مگر ایرانی قوم کے بہادر نوجوانوں نے فوج کے سامنے سرنڈر کرنے سے انکار کر دیا۔ کیا مناظر تھے، ہزاروں نوجوان کھڑے ہوتے، فوج گولیاں برساتی وہ شہید ہو جاتے، انکی جگہ ہزاروں اور نوجوان کھڑے ہو جاتے پھر گولیاں برسائی جاتیں، پھر ایک ایسا مرحلہ آیا جب گولیاں ہار گئیں، بندوقیں شکست کھا گئیں، فوج پسپا ہو گئی، ایرانی قوم جیت گئی، اس فاتحانہ انداز میں جذبہ جیت گیا نوکری ہار گئی، پھر چشم فلک نے دیکھا کہ لاکھوں افراد نے امام خمینی کا استقبال کیا، ایرانی انتظامیہ کا مقصد تبدیل ہوا، شاہ کی حکومت کو فحاشی پر ناز تھا، اب جو نئی حکومت آئی تو اسکا مقصد اعلیٰ اخلاقیات کیساتھ ترقی کا راستہ تھا۔ شاہ کے دور میں تہران میں وسیع و عریض امریکی سفارتخانہ تھا، دنیا بھر میں کسی بھی ملک میں سب سے بڑا امریکی سفارتخانہ ایشیا میں سی آئی اے کا ہیڈ کوارٹر تھا، پاسداران انقلاب نے سی آئی اے کے مرکز کا خاتمہ کیا اور بہت سے امریکی جاسوسوں کو یرغمال بنا لیا۔ انقلاب کے مرحلے پر ایرانی قوم تو خوش تھی کہ انکا جذبہ جیت گیا مگر اس قوم کو زیر کرنے کیلئے امریکیوں نے لمبی چوڑی منصوبہ بندی کی، ایران، عراق جنگ شروع کروا دی اور ساتھ ہی ایران پر عالمی پابندیاں بھی لگا دی گئیں، جنگ اور پابندیوں کے سامنے ایرانی ڈٹے رہے۔ گویا وہ اپنے لیڈر امام خمینی کی آواز پر لبیک کہتے رہے۔ آج برسوں بعد بھی وہ اپنے انقلاب کیساتھ کھڑے ہیں اور غلامی سے نکل کر ایک آزاد ملک کے طور پر اپنی منفرد آواز کے حامل ہیں۔
ایران پر پابندیاں لگانے والے امریکا کا خیال تھا کہ ایران میں اسلامی انقلاب پسپا ہو جائیگا کیونکہ ایران پابندیاں برداشت نہیں کر سکے گا، اس دوران اسے عراق کیساتھ جنگ میں بھاری نقصان بھی اٹھانا پڑیگا، آفرین ہے ایرانیوں پر کہ انہوں نے غرور کو اپنے ملی جذبے سے خاک میں ملا دیا، پابندیوں کو 4 دہائیاں ہو چکی ہیں مگر ایرانیوں نے پابندیوں میں جینا سیکھ لیا ہے، ایرانی دنیا کی ہر چیز تیار کر رہے ہیں اور حیرت ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں سے کہیں بہتر تیار کر رہے ہیں۔ موجودہ ایران 31صوبوں پر مشتمل ہے۔ 1950ء تک ایران کے 12صوبے تھے، پھر 1950 ء میں ان صوبوں کو دس ریاستوں میں تقسیم کر دیا گیا، 1960ءسے لیکر 1981ءتک کئی ریاستوں کو صوبوں کا درجہ دیا گیا اور ساتھ نئے صوبے بنائے گئے، آخری مرتبہ صوبوں میں اضافہ 2004ء میں ہوا جب خراسان کو تقسیم کر کے تین نئے صوبے بنائے گئے، ایران کے 31صوبوں میں البرز، اردبیل، آذربائیجان شرقی، آذربائیجان غربی، بو شہر، چہار محال و بختیاری، فارس، گیلان، گلستان، ہمدان، ہرمزگان، ایلام، اصفہان، کرمان، کرمان شاہ، خراسان شمالی،خراسان رضوی، خراسان جنوبی، خوزستان، کہگیلویہ و بویر احمد، کردستان، لرستان، مرکزی، مازندران، قزوین، قم، سمنان، سیستان و بلوچستان، تہران، یزد اور زنجان شامل ہیں۔ اگرچہ ایران بہت قدیم ملک ہے مگر ایران کی آبادی تقریباً 9 کروڑ ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایرانیوں نے اپنی آبادی کو بہت حد تک کنٹرول کیا ہے، لہٰذا آج بھی ایران کے وسائل آبادی کے تناسب سے کہیں زیادہ ہیں۔
ایران کی زیادہ آبادی شہروں پر مشتمل ہے، تقریباً 75 فیصد آبادی شہروں میں جبکہ وسیع و عریض ایران میں دیہی آبادی صرف 25فیصد ہے۔ ایران کا دارالحکومت تہران ملک کا سب سے بڑا شہر ہے، ایران کی 11فیصد آبادی اسی شہر میں رہتی ہے، مشہد ایران کا دوسرا بڑا شہر ہے، یہ صوبہ خراسان رضوی کا دارالحکومت ہے، مشہد میں امام رضا کا مزارِ مقدس ہے، ہر سال قریباً دو کروڑ زائرین امام رضا کے مزار پر حاضری دیتے ہیں، ایران کا تیسرا بڑا شہر اصفہان ہے، یہ تاریخی اور صنعتی شہر ہے، یہاں ماضی کی کئی یادگاریں ہیں، ایران کے باقی بڑے شہروں میں کرج، شیراز، تبریز اور قم سمیت کئی شہر ہیں۔ اگر آپ موجودہ ایران کو دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ ایران، مغربی ترقی یافتہ ملکوں سے کہیں آگے ہے، اس میں ایرانیوں کی حکمت، منصوبہ بندی اور لگن کے علاوہ ایک قوم ہونے کا جذبہ بھی شامل ہے۔ ایران نے اپنے شہریوں کو سہولیات دے کر دکھوں سے دور کر رکھا ہے۔ جرائم کی شرح صفر ہے، ہر طرف نفاست ہے، ایرانی محنتی اور صفائی پسند ہیں یہی چیزیں ایران کو دوسری قوموں سے ممتاز کرتی ہیں، بقول شاعر
وہ کون سا عقدہ ہے جو وا ہو نہیں سکتا
ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا