مرشد کون ہوتا ہے؟ ڈکشنری میں مرشد کو پیر ، ہادی ، گرو،ولی سمیت وہ رہنما قرار دیا جاتا ہے جس کا ارادہ پکا ہو، عوام نے دیکھ لیا کہ اہل یوتھ کا پیر جس ارادے سے آیا تھا اس پروہ پکارہا اور پورے ملک کے عوام کا دیوالہ نکال کر رکھ دیا،وہ ایسا سچا ولی نکلا کہ اس نے عوام کو بربادی کا بالکل سیدھارستہ دکھا کر ملک الموت سے آشنا کردیا، اسکے پیرو اسے بادشاہ سمجھتے رہے اور وہ بادشاہ ہی نکلا لیکن محمد شاہ رنگیلا ، ویسے تو اسکی رنگین مزاجی کےقصے گزشتہ پچاس سال سے زبان زد عام ہیں، اس نے بھی کیا قسمت پائی کہ مرد ہو یا عورت جو جو اس کے قریب رہا اس نے بعد از رخصت اسکی رنگین مزاجیوں کے قصے بیان کئے، ڈکشنری کے مطابق سچا پیر گمراہی کے زنگ ہٹا کر دل صاف شفاف کردیتا ہے، لیکن اس نام نہاد پیر نے تسبیح پھیرنے کا ڈرامہ کرکے قوم یوتھ کے دلوں سے تمیز اور شرم نامی جذبے سمیت سارا ڈیٹا ڈیلیٹ کردیا اور بے شرمی سمیت تمام منفی جذبے فیڈ کردیئے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نجی محافل ہوں یا جلسےقومِ یوتھ مرشد مرشد کی گردان کرتےپائے گئے،اہل یوتھ پر یہ فرض تھا کہ مرشد کو جھوٹا ، بد اخلاق اور بے ایمان کہنے والے ہر گستاخ کی ٹرولنگ کریں ،اہل یوتھ نے بھی کیا قسمت پائی ہے ، وہ اپنے قائد کو زندہ پیر سمجھتے رہے جبکہ انکا پیر مزاروں پر سجدے کرتا اور پیرنی کےپیر دھو دھو پیتا رہا، جب ملک کی معیشت عملی طور پرڈوب گئی تب مقتدر حلقوں سمیت سب پر عیاں ہوگیا ہے کہ یہ اوپر سے نیچے، دائیں سے بائیں،اول و آخر سرا سر گمراہوں کا ٹولہ تھا، جنکی عقلوں پر ، سماعتوں پر یہاں تک کہ آنکھوں پر بھی پردے پڑ ے ہوئے تھے،اب اہل یوتھ کو بھی یہ پتہ چلنا شروع ہوگیا ہے کہ اللہ نے پتھر میں یہ خاصیت رکھی ہے یہ جتنا مرضی بڑا ہو،جتنا مرضی بھاری ہو ، جتنا مرضی سخت ہو اسکی قسمت ٹوٹنا ہی ہے ،حقیقی صورتحال تو یہ ہے کہ غفلت، گمراہی کے پتھر ٹوٹنا شروع ہوگئے ہیں جو ریزہ ریزہ ہوکر رہیں گے،رب سوہنے کی کس کس ادا کے صدقے جائیں ، خدائے بزرگ و برتر نے اس جھوٹے کے سامنے وہ سب کچھ لاکھڑا کیا ہےجس سے وہ خود کو مبرا سمجھتا تھا، مکافات کی گردش ایسی ہوئی کہ وہ سارا کیچڑ، گندگی اور سیاہی جو اس نے دوسروں پر گرائی سب اسکی جانب پلٹ آئیں ،اس کیلئےان سے بچنا ناممکن ہے،’’چو ر چور، رسیداں کڈ‘‘ سے لیکر ’’نیکسٹ اسٹاپ اڈیالہ‘‘ کےنغمے اس کوڈرائونا خواب بن کر دن میں ہی نظر آرہے ہیں، صرف سائفر کیس یا 190 ملین پونڈ کرپشن کیس کی بات کریں تو ان دونوں سے اس کا بری ہونا مشکل ترین ہوتا جارہا ہے، مانیکا کی زبان کھل گئی ہے اب مونیکا کی زبان کھلنا باقی ہے جس کا بند رہنا ناممکن ہے، الیکشن کمیشن کے حکم پر پارٹی انتخابات میں اس نے نیا پارٹی چیئرمین نامزد کردیا ہے، مقام فکر ہے کہ پارٹی انتخابات کیلئے چیئرمین کا امیدوار نامزد کرنا ہو یا نائب چیئرمین یا پھرپنجاب کا صدر ایک بھی امیدوار پارٹی کا سینئر اوربانی فرد نہیں ، دوسری جانب بند دماغوں والے اہل یوتھ اس فیصلے کا دفاع یوں کررہے ہیں کہ دیکھا اس نےغیر آدمی کو چیئرمین کا امیدوار بنا کر موروثیت کی نفی کردی،حقیقت تو یہ ہے کہ جب اسکی پتنگ کی اڑان زوروں پر تھی تو سب سے پہلے اس کا بہنوئی نہ صرف اسے چھوڑ گیا بلکہ ڈنکے چوٹ پر اسکی اصلیت ساری دنیاکو دکھائی، اسکی شادیوںاور طلاقوں کے فیصلوں میں اسکی بہنیں ہمیشہ لاتعلق اور اجنبی رہیں،تمام رشتہ داروں اور قریبی دوستوں میں وہ موڈی اور ناقابل اعتبار شخص مشہور تھا ،کوئی اس پر سنجیدگی سے یقین نہیں کرتا تھا، اس لئے اکثر جلد یا بدیر اس سے دور ہوجاتے تھے،اب جب پارٹی الیکشن کا موقع آیا تو پارٹی کے بانیوں کی اکثریت اسے کب کا چھوڑ چکی ہے، دو بانی باقی بچے ہیں جن میں سے ایک جیل یاترا کے بعد سیاست سےتائب ہوچکا جبکہ دوسر اسینئر وکیل اسے منہ لگانے کو تیار نہیں ۔سچ تو یہ ہے، اسکے پاس چیئرمین کا متفقہ موزوں امیدوار تھا ہی نہیں ،بیوی کو چیئرمین بنانے کا سوچا تو بہنوں نے ہاتھ کھڑے کردیئے ، بہن کوچیئرمین بنا نے کا سوچا تو بیوی نے بغاوت کا الٹی میٹم دیدیا، یہ ہے اسکی دو دہائیوں پر مشتمل جدوجہد کی سچی روداد، یاد رہے کاٹھ کی ہنڈیا بار بار نہیں چڑھتی۔