آج دنیا بھر میں معذور افراد کا عالمی دن منایا جا رہا ہے ۔پاکستان میں بسنے والے تقریباً ساڑھے تین کروڑ معذور عوام جنہیں اسپیشل پرسن کہا جاتا ہے، ان کے ساتھ حکومت معاشرے ،اداروں اور اپنوں کا سلوک بد ترین ہے ۔انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں 76سال گزرنے کے بعد بھی معذور افراد کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے کہ ہر طرف ہم معذور افراد کو سڑکوں اور چوراہوں پر بھیک مانگتے ہی دیکھتے ہیں۔
کوئی بھی شخص اپنی مرضی سے معذور نہیں ہوتا بلکہ پیدائشی طور پر یا کسی حادثے کی وجہ سے معذوری اس کا مقدربنتی ہے لیکن پھر انہیں خود سے الگ تھلگ کر دیا جاتا ہے، معذوروں کو حقارت بھری نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ انہیں ہمیشہ لوگوں کی نفرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لوگوں کی تلخ باتیں اور سخت جملے برداشت کرنا پڑتے ہیں، معذوری کے طعنے سننا پڑتے ہیں بلکہ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ معذور افراد منحوس ہیں ان پر خدا کا عذاب آیا ہے یا یہ اپنے کسی گناہ کی وجہ سے اس حالت میں ہیں ،کوئی ان سے ہمدردی یا انکی دل جوئی نہیں کرتا۔ معذوروں کے ساتھ امتیازی اور ظالمانہ سلوک ان کے گھر سے شروع ہوتا ہے اور معاشرے سے ہوتا ہوا حکومتی سطح تک جاتا ہے۔ معذور افراد کو گھر میں بھی قبول نہیں کیا جاتا، ان کو پہلے دن سے ہی ناکارہ قرار دے کر حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے اور سمجھ لیا جاتا ہے کہ یہ اب زندگی میں کچھ نہیں کر سکتے اور انہیں بس بھیک مانگنی ہے، اگر کسی گھر میں معذور بچہ موجود ہو تو والدین اس کی تعلیم و تربیت کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے، اس کو ابتدا سے ہی معذوری کے طعنے ملنا شروع ہو جاتے ہیں خود گھر والے اسے وبال، بوجھ اور مصیبت سمجھنے لگتے ہیں۔ اسے یا تو بھیک مانگنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے یا پھر اسے گھر کے کسی کونے میں پھینک کر اس کی موت کا انتظار کیا جاتا ہے۔ یہ رویہ ہمارے معاشرے میں ہر طرف نظر آتا ہے کوئی بھی سرکاری یا غیر سرکاری ادارہ ان کیلئے کوئی سہولت یا آسانی پیدا کرنے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتا، اگر کسی معذور کو اپنے کسی مسئلے کیلئے کسی سرکاری دفتر یا ادارے میں جانا پڑ جائے تو اس کے ساتھ بھکاریوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے، اسے خوب ذلیل کیا جاتا ہے، پورے ملک میں کہیں بھی معذوروں کے لئے بنیادی سہولتیں موجود نہیں، کسی دفتر کسی ادارے کسی سرکاری یا پرائیویٹ بلڈنگ میں ویل چیئر کیلئے راستے موجود نہیں ، چھوٹے بڑے شاپنگ سینٹرز،پلازے، ہوٹل اور ریسٹورنٹ کہیں بھی ویل چیئر افراد کو لے جانے کا انتظام نہیں۔ ریلوے ہو یا پرائیویٹ بسیں ویگنیں کہیں بھی ویل چیئر کی رسائی نہیں، حتی کہ جدید انداز میں بننے والی میٹرو بس ،اورنج لائن ٹرین میں بھی معذور افراد کو رسائی نہیں دی گئی۔ پاکستان کے تقریباً ساڑھے تین کروڑ معذور افراد میں سے ایک میں بھی ہوں جس کی کتاب " درد کا سفر " کا سینکڑوں اخبارات، رسائل، چھوٹے بڑے ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر بھرپور چرچہ ہے،اس پر پاکستان کے نامور قلم کار مصنف ادیب کالم نگار انتہائی عقیدت کے ساتھ خراج تحسین پیش کر رہے ہیں اور سچائی پر مشتمل انتہائی خوبصورت منفرد مثبت اور تدریسی انداز میں اپنے خیالات کا بھرپور اظہار کر چکے ہیں ،یہاں تک کہتے ہیں یہ کتاب نہیں ایک ایسا درس ہے جسے لوگ فراموش کر چکے ہیں، اس کتاب زندگی کو ہر اس شخص کو پڑھنا چاہئے جو زندگی سے مایوس ہو رہا ہے یا پھر جسے زندگی کی قدر نہیں یا پھر وہ جو زندگی کے مسائل سے جلد گھبرا جاتا ہے۔لکھتے ہیں جس شخص کی یہ داستان حیات ہے اگر وہ یورپ یا امریکہ میں ہوتا تو تو اب تک اس پر دس، بیس فلمیں بن چکی ہوتیں، بہرحال بھارت کے نامور فلم سازوں نے اس پر فلم بنانے کی پیشکش کی ہے۔ پاکستان کے نامور کالم نگار جناب جاوید چوھدری صاحب لکھتے ہیں میرا مصنف کے ساتھ عقیدت وشاگردی کا رشتہ بن چکا ہے اور میرا دعویٰ ہے آپ بھی اس کتاب کو پڑھیں گے تو آپ بھی اسی بندھن میں بندھ جائیں گے۔ میں اپنے بارے میںآپ کو کچھ مزید بتانا چاہتا ہوں۔ میرا 90 فیصد جسم مفلوج ہے۔میں ایک محب وطن پاکستانی ہوں۔ شدید معذوری کے باوجود 42 سال کا عرصہ دیار غیر میں گزارا، کئی پیشکشوں کے باوجود غیر ملکی شہریت نہیں لی۔ دنیا بھر سے ملنے والے ایوارڈز کے علاوہ پاکستان ایکسیلنس ' امریکہ سے ون ان ملینز ' سعودی عرب سے پانیر اینڈ ٹیلنٹڈ اور سندھ کی تنظیم سے ستارہ پاکستان کا ایوارڈ ملا۔وہیل چیر پر تن تنہا 52 ملکوں کا دورہ کرکے ورلڈ ریکارڈ قائم کیا ہے۔ الحمدللہ میں فرینڈز آف پیرا پریجک پاکستان کا سرپرست اعلیٰ ہوں ، عالمی مبصرین کے مطابق دنیا بھر میں پاکستان کی اور پاکستان میری پہچان ہے۔مگر میرا ملک مسلسل نظر انداز کر رہا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ دیگر ممالک تو مجھے اس بنا پر کہ میں نے شدید معذوری کے باوجود نارمل انسانوں سے زیادہ انسانیت کی خدمت کی ہے، مجھے ایوارڈ دے رہے ہیں لیکن حکومت پاکستان کی ستم ظریفی کہ میری خدمات کو سراہنے اور سول ایوارڈ دینے کی بجائے مجھے یہ کہہ کر ذہنی اذیت دی گئی کہ سول ایوارڈ انہیں دیا جاتا ہے جو معذور نہ ہوں، معذور ملک اور قوم کی خدمت کر سکتا ہے لیکن اپنے ملک کا اعزاز لینے کا حق نہیں رکھتا۔ حکومت کی یہ معذوری میری معذوری سے زیادہ تو نہیں ہے۔ سول ایوارڈ میرا حق ہے اگر حکومت مجھے دیتی ہےتو اس سے نہ صرف میری بلکہ کروڑوں معذور افراد کی حوصلہ افزائی ہوگی حکومت پاکستان معذور افراد کی ری ہیبلیٹیشن پر توجہ دے تو کوئی وجہ نہیں 50فیصد سے زیادہ معذور افراد کو برسر روزگار کر کے معاشرے میں باعزت مقام نہ دلایا جا سکے۔