تہران میں بسر کیے ہوئے چار دنوں کی یادیں دل پر نقش ہیں، تہران بہت خوبصورت ہے، مجھے واشنگٹن، لندن اور بیجنگ سمیت کئی دارالحکومت دیکھنے کا اتفاق ہوا مگر تہران ان سب سے حسیں ہے اگرچہ آبادی کے اعتبار سے تہران ملک کا بڑا شہر ہے مگر پھر بھی یہاں ہر طرف سبزہ ہے، میں سمجھتا تھا کہ اسلام آباد اور واشنگٹن بڑے سر سبز ہیں مگر تہران ان سے آگے نکلا، اس شہر کی چمکتی سڑکیں یورپ کو مات دیتی ہیں۔ میرے ہمسفر امیر عباس اور رضی طاہر کو تھوڑا سا واک کا شوق تھا مگر ہماری مترجم شائستے قلی جائی تو گھر سے طے کر کے آتی تھیں کہ دس کلومیٹر لازمی پیدل چلنا ہے، میں نے ان کی یہ عادت دیکھ کر پوچھ ہی لیا ، لگتا ہے کہ آپ دفتر پیدل جاتی ہیں، انہوں نے کہا بالکل کیونکہ کوہ پیمائی میرا شوق ہے اور میرے لئے پندرہ سولہ کلومیٹر پیدل چلنا کچھ بھی تو نہیں۔ تہران کسی حد تک اسلام آباد کی طرح ہے، وہ بھی پہاڑ کے دامن سے لپٹا ہوا ہے، تہران کی کچھ پرانی آبادیاں غیر ہموار راستوں کی حامل ہیں، جس جگہ امام خمینی ؒکا چھوٹا سا گھر ہے وہاں گلیوں کا منہ ہموار سڑک پر کھلتا ہے مگر پھر یہ چھوٹی گلیاں بلندی کی طرف جاتی ہیں، ایک بڑے گول چکر میں تجریش چوک ہے، تجریش کبھی گائوں ہوا کرتا تھا، تہران نے بازو پھیلائے تو تجریش کو بانہوں میں لے لیا۔ اسی تجریش چوک میں حضرت صالح بن موسیٰ کاظمؒ کا مزار مقدس ہے، حضرت صالحؒ، امام رضاؒ کے چھوٹے بھائی ہیں، امام رضا ؒکا مزار مشہد میں ہے جبکہ ان کی بہن قم میں مدفون ہیں، تہران میں بھی کئی مقدس ہستیوں کے مزارات ہیں بلکہ انقلاب ایران کے بانی امام خمینی ؒ بھی تہران ہی میں مدفون ہیں۔ تہران رنگوں میں نہایا ہوا شہر ہے، ایرانی کوئی بھی چیز بناتے ہیں تو شاہکار بنا دیتے ہیں، ان کے ریلوے اسٹیشن ہمارے ہوائی اڈوں سے بہتر ہیں۔ ایرانیوں کی منصوبہ بندی پر انسان ششدر رہ جاتا ہے۔ ایک روز تہران کی بڑی شاہراہ کے کنارے بیٹھ کر سوچتا رہا کہ کیا شاندار منصوبہ بندی سے سڑکیں بنائی ہیں، یکطرفہ ٹریفک کی حامل سڑکوں کے کناروں پر خوبصورت درخت لگے ہوئے ہیں، درختوں کی باڑ کے پیچھے کم از کم تیس فٹ چوڑے فٹ پاتھ ہیں پھر دونوں سڑکوں کے درمیان کم از کم 60 فٹ چوڑائی پر درخت لگے ہوئے ہیں، ان درختوں کے درمیان بھی دو فٹ پاتھ ہیں، ان دو فٹ پاتھوں کے درمیان شفاف پانی کا چھوٹا سا نالہ بہہ رہا ہے، فٹ پاتھوں پر جگہ جگہ بنچ بنے ہوئے ہیں تاکہ کوئی راہ رو تھک جائے تو دم بھر کیلئے آرام کرلے، آرام کے درمیان آنکھوں کو پانی اور سبزے سے خیرہ کرے۔ قدرت کا یہ حسن تو یورپ میں بھی نظر نہیں آتا، تہران میں گھومتے ہوئے کئی بار احساس ہوتا ہے جیسے یہ کوئی یورپ کا شہر ہو، شاید اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ایرانی مرد اور عورتیں پینٹ پہنتے ہیں، ایران کے بارے میں مغربی میڈیا نے جو پروپیگنڈہ کر رکھا ہے وہ بالکل غلط ہے کیونکہ وہاں مرد اور عورتیں اکٹھے کام کرتے ہیں، اکٹھے چہل قدمی کرتے ہیں، خواتین گاڑیاں بھی چلاتی ہیں، تہران میں آنکھوں نے عورتوں اور مردوں کو آزادی سے گھومتے دیکھا بلکہ نوجوان نسل کو تو سگریٹ کے کش لگاتے بھی ۔ ایرانی موسیقی کے دلدادہ ہیں، نفیس ایرانی قوم بہت صفائی پسند ہے۔ تہران کا شمالی حصہ اونچے لمبے درختوں سے فضاؤں کو مہمیز کرتا ہے، تہران کے دوسرے علاقوں کی نسبت یہ مہنگا ترین علاقہ ہے، شمالی تہران میں سعد آباد کے علاقے میں رضا شاہ پہلوی کا محل ہے، اس محل کے کم و بیش 18 حصے ہیں، ہر حصے کو باغات نے گھیر رکھا ہے، ایران کی موجودہ حکومت محل کے 8 حصوں کو سرکاری امور کے لئے استعمال کرتی ہے، جبکہ 10 حصے عام پبلک کے لئے کھول رکھے ہیں جہاں لوگ سیاحت کرتے ہیں۔ تہران میں ایک پہاڑی پر وسیع و عریض تجدید پارک ہے، اس میں تین پر کشش پلوں کو حقیقت کا روپ دینے والی چوبیس سالہ لیلیٰ اب چالیس برس کی ہو چکی ہے۔تہران میوزیم ایران کی ہزاروں برس پرانی تاریخ کی گواہیاں دیتا ہے۔ تہران میں دو ائیر پورٹ ہیں، امام خمینی ائیرپورٹ بین الاقوامی پروازوں کے لئے ہے۔ تہران کا دوسرا ہوائی اڈہ شہر کے اندر مہر آباد ائیر پورٹ کے نام سے ہے، جہاں سے اڑنے والے جہاز ایران کی حدود میں رہتے ہیں۔ تہران شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کے لئے شاندار بسیں رواں دواں رہتی ہیں، ایرانیوں نے ریلوے کا اعلیٰ ترین نظام قائم کر رکھا ہے، ان کے ہاں دنیا کی جدید ترین ٹرین چلتی ہے، ایران میں ہسپتال کو بیمارستان کہا جاتا ہے مگر ان بیمارستانوں کو دیکھ کر فائیو سٹار ہوٹلوں کا گمان ہوتا ہے۔ تہران کے قدیم بازاروں کی رونق اپنی جگہ مگر مال آف ایران بہترین شاہکار ہے۔ میں نے دنیا میں اتنا خوبصورت مال نہیں دیکھا، کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا مال ہے۔ تہران میں یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ ایران مغربی ملکوں سے کہیں آگے ہے۔ اگر آپ یہ نہ بھی مانیں تو یہ ضرور ماننا پڑے گا کہ ایران ترقی یافتہ ملکوں کے ہم پلّہ ضرور ہے۔ بقول اقبال
اے اہلِ نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)