• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: فاروق اور شازیہ دونوں عاقل وبالغ ہیں ،ان کا نکاح ان کے اولیاء اور گواہوں کی موجودگی میں پڑھایا گیا مقرر کردہ مہر ادا کردیا گیا اور دیگر علاقائی رسوم بھی ادا کی گئیں، صرف نکاح کا خطبہ نہیں پڑھا گیا۔ کیا نکاح میں خطبہ پڑھنا شرط ہے ؟ مذکورہ نکاح منعقد ہوا یا نہیں ؟(محمد فاروق، ضلع مظفر آباد)

جواب: مرد وعورت عاقل وبالغ کا نکاح دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول سے منعقد ہوجاتا ہے ،خطبۂ نکاح ،نکاح کے مستحبات میں سے ہے، ارکانِ نکاح میں سے نہیں ،علامہ علاؤالدین حصکفی لکھتے ہیں :ترجمہ:’’ اورنکاح کا علانیہ ہونا اور اس سے پہلے خطبہ پڑھنا مستحب ہے۔ آگے چل کر انہوں نے لکھا:کسی نیک شخص کا عادل گواہوں کی موجودگی میں جمعہ کے دن مسجد میں پڑھانا مستحب ہے، (ردالمحتار علیٰ الدر المختار ، جلد4،ص:57، مطبوعہ:بیروت)‘‘۔

امام احمد رضا قادری ؒ سے سوال کیا گیا کہ مجلس میں نہ ذکر نکاح کا ہوا نہ خطبہ پڑھا گیا ،نہ مہر کا ذکر ہوا ،اب یہ نکاح ہوگا یا خطبہ یا ناطہ ؟۔آپ نے جواب میں لکھا :’’ خطبہ پڑھاجانایا ذکر ِ مہر ہونا کچھ شرط ِ نکاح نہیں،وہ مجلس اگر عقد کے لیے تھی ،عقد ہوگیا اور اگر مجلسِ وعدہ تھی اور حاضرین نے اسے وعدہ ہی سمجھا تو وعدہ ہوا ،نکاح نہ ہوا ۔ ترجمہ:’’در مختار میں ہے کہ: اگر یہ مجلس وعدہ (منگنی) کے لیے ہے تو منگنی ہے اور مجلس نکاح ہے ،تو نکاح ہوگا۔

نکاح بالفاظِ صریحہ میں نیت شرط نہیں ،الفاظ ِ ایجاب وقبول ہونا اور دو شاہدوں (گواہوں) کا سمجھنا کہ یہ نکاح ہورہا ہے ،کافی ہے ،ذکرِ مہر نہ ضرور، نہ قرینہ اور خطبہ اگرچہ ضروری نہیں، مگر قرینہ نکاح ہے ،واللہ اعلم بالصواب ، (فتاویٰ رضویہ ،جلد11،ص:259)‘‘۔ لہٰذا اگر خطبۂ نکاح نہ پڑھا گیا ہو تو بھی نکاح درست ہے اورشرعاً نکاح منعقد ہوگیا۔