تفہیم المسائل
سوال: ہمارے علاقے میں پچیس سال قبل ایک مسجد بناتے وقت امام مسجد سے کہا گیا کہ مسجد کے کاغذات آپ کے نام کرواتے ہیں، لیکن امام صاحب نے کسی دوسرے شخص کے بارے میں کہا کہ ان کے نام امانتاً کروادیں، یہ صاحبِ حیثیت ہیں اور اس معاملے میں ہمارے مددگار ہوں گے۔
امانتاً مسجد اس شخص کے نام کردی گئی، پچیس سال میں صرف دو مرتبہ ہی وہ شخص مسجد آیا، پچیس سال پہلے وہ شخص کراچی میں عربی ٹیچر تھا، کسی مسجد میں امام بھی تھا، اب ریٹائر ہوگیا ہے تو یہاں آکر امام صاحب کو نکالنا چاہتا ہے، کیا کسی شرعی عذر کے بغیر امام مسجد کو معزول کرسکتا ہے، واضح رہے کہ مسجد کا انتظام محلّے کے افراد پر مشتمل کمیٹی چلاتی ہے، اس شخص کو ذاتی کوئی عمل دخل نہیں ہے، (مولانا نذیر احمد مگسی، وندر، بلوچستان)
جواب: مساجد ’’وقف للہ ‘‘ ہوتی ہیں ، کسی شخص کی ذاتی ملکیت نہیں ہوتیں، کاغذات میں کسی شخص کا نام درج کرنا محکمہ جاتی کارروائی ہے، ملکیت نہیں، وقف کے متعلق حکم یہ ہے کہ اُسے نہ تو بیچا جاسکتا ہے نہ ہبہ کیاجاسکتا ہے اور نہ ہی اُس میں وراثت جاری ہوتی ہے ،علّامہ نظام الدین ؒ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ پس (وقف)لازم ہوجاتا ہے، نہ تو اُسے بیچا جاسکتا ہے، نہ ہبہ کیاجاسکتا ہے اور نہ ہی اُس میں وارثت جاری ہوتی ہے، ہدایہ میں اسی طرح ہے، (فتاویٰ عالمگیری، جلد2ص:350)‘‘۔
اصولی طور پر تو زمین براہِ راست مسجد کے نام وقف کی جانی چاہیے تھی ،لیکن جس شخص کے نام امانتاً ملکیت کے کاغذات منتقل کیے گئے تھے، وہ نہ اس کا حقیقی مالک ہے اور نہ مُتولّی ہے کہ بطور مُتولی تصرُّفات کرے بلکہ اسے چاہیے کہ اولین فرصت میں سرکاری ریکارڈ میں اس کا اندراج مسجد کے نام کرائے، کیونکہ اگر کل اُس کا انتقال ہوجائے تو اندیشہ ہے کہ کہیں اس کے ورثاء وراثتی ملکیت کا دعویٰ نہ کرلیں۔
اس ملک میں ارب کھرب پتی اپنی ناجائز کمائی ہوئی دولت اپنے فرنٹ مین کے نام کردیتے ہیں تاکہ قانون کی گرفت سے بچ سکیں، مساجد کے نام وقف زمین امانتاً کسی انفرادی شخص کے نام کرنا شرعاً وقانوناً درست نھیں تھا، تاہم اب اس پر لازم ہے کہ اولین فرصت میں مسجد کی جگہ مسجد کے نام قانونی طریقے سے منتقل کرے، اگر اس زمین کا تعلق محکمۂ مالیات سے ہے تو مختار کار کے پاس جاکر زمین مسجد کے نام منتقل کریں اور اس حوالے سے تمام قانونی تقاضے پورا کریں، ورنہ رجسٹرار کے ہاں باقاعدہ مسجد کے نام رجسٹری کرائیں اس کے بعد اہم یہ ہے کہ اگر آپ نے مسجد کی انتظامی کمیٹی تشکیل دے رکھی ہے اور مسجد کے انتظامی اُمور وہ کمیٹی طے کرتی ہے، تو کسی بیرونی فرد کی مداخلت کوئی معنیٰ نہیں رکھتی۔
کسی شرعی وجہ کے بغیر امام کو اس کے منصب سے معزول نہیں کیاجاسکتا، کسی شرعی عذر کے بغیر معزول کرنے کا اختیار مُتولی یا انتظامی کمیٹی کو بھی نہیں ہے، کسی بیرونی فرد کو کیسے ہوسکتا ہے، علامہ زین الدین ابن نُجیم حنفی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ مُتولی کو بلا وجہ شرعی معزول کرنے کے عدمِ جواز سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وقف سے وظیفہ پانے والے کسی بھی شخص کو بغیر کسی جرم کے معزول کرنا جائز نہیں ہے ، (البحرالرائق، جلد5،ص:380)‘‘۔
امام احمد رضا قادری قُدِّسَ سِرُّ ہ العزیز سے سوال کیاگیا: ’’ راب گڑھ میں دو مسجدیں ہیں، جن میں سے ایک کا مُتولی جونماز روزہ کا پابند نہیں ہے، اُس نے ایک پیش امام جوقوم کا صدیقی اورعلم کا حافظ ومولوی حکیم مقرر تھا، اس کو مُتولی نے بلا وجہ الگ کردیا اور بجائے اس کے بلا رائے مقتدیوں کے دوسرا مام جو صرف حافظ وقوم کا قصاب ہے۔ مُتولی سے معزولی کا سبب پوچھا، تو جواب دیا : ہماری مسجد ہے ،ہم جو چاہیں سوکریں، مقتدی پوچھ نہیں سکتے ‘‘۔
آپ نے جواب میں لکھا: ’’ اگر صحتِ مذہب وقراء ت وطہارت میں بقدرِ جواز ِ نماز ہیں اورامام وظیفہ پاتا ہے، تو بلاقصور پہلے کو معزول کرنا گناہ ہواکہ بلا وجہ ایذائے مسلم کہ ’’ لَایُعزلُ صَاحِبُ وَظِیفَۃٍ بِغَیرِجُنْحَۃٍ‘‘(کسی صاحبِ وظیفہ کو بغیر کسی گناہ کے معزول نہیں کیا جا سکتا ) اور مُتولی کا کہنا: ہماری مسجد ہے، ہم جو چاہیں کریں، محض باطل ہے، مسجدیں اللہ عزوجلّ کی ہیں: اَنَّ الْمَسَاجِدَلِلّٰہِ فَلَاتَدْعُوامَعَ اللّٰہِ أَحَدًا(یقیناً مسجدیں اللہ تعالیٰ ہی کی ہیں ،تو اللہ کے ساتھ کسی کی بندگی نہ کرو)اُس میں وہی کیاجائے گا، جو حکمِ شرع ہے اور اس کایہ زَعم باطل ہے کہ مقتدی پوچھ نہیں سکتے، ( فتاویٰ رضویہ، جلد6،ص:615)‘‘۔
اور اگر بالفرض خدانخواستہ امام مسجد میں کوئی شرعی خرابی ہے، تواس کی نشاندہی کریں، پھر اس کے مطابق فتویٰ صادر ہوگا، لیکن ثبوت وشواہد کے بغیر کسی پر الزام لگانا شرعاً درست نھیں ہے اور نہ اس پر کوئی شرعی حکم مرتب ہوتا ہے۔( واللہ اعلم بالصواب )