• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دین و دُنیا کا تصور قرآن و سنت کی روشنی میں

مولانا محمد راشد شفیع

دین اور دنیا کا تعلق انسانی زندگی کا نہایت اہم اور بنیادی مسئلہ ہے۔ بعض لوگ دین کو دنیا سے بالکل الگ سمجھتے ہیں اور بعض دنیا کو دین کے مقابل لا کھڑا کرتے ہیں۔ حالانکہ اسلام کی اصل تعلیم یہ ہے کہ دین انسان کو دنیا میں صحیح طرزِ زندگی عطا کرتا ہے۔ دنیا اور دین ایک دوسرے کے مخالف نہیں ،بلکہ دین ہی دنیا کے صحیح استعمال کا نام ہے۔ 

شریعت میں بارہا اس حقیقت کو واضح کیا گیا ہے کہ دنیا کی زندگی آخرت کی کھیتی ہے۔ دنیا کو چھوڑ دینا اسلام کا مطلوب نہیں، بلکہ دنیا کو شریعت کے دائرے میں رہ کر استعمال کرنا اصل کامیابی ہے۔ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین دنیا میں رہتے ہوئے بھی سب سے بڑے عابد و زاہد تھے۔ انہوں نے تجارت بھی کی، حکومت بھی کی، مگر ان کے دل آخرت کے ساتھ وابستہ رہے۔

آج کے دور میں اس توازن کی شدید ضرورت ہے، کیونکہ جدید تہذیب نے دین اور دنیا کو الگ خانوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ نتیجتاً انسان یا تو سراسر دنیا پرست ہو گیا یا پھر دنیا کو ترک کرنے کو ہی تقویٰ سمجھ بیٹھا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ دین اور دنیا کا باہمی توازن ہی انسان کو کامیاب بناتا ہے۔ اس توازن کے بغیر نہ دنیا سنور سکتی ہے اور نہ دین قائم رہ سکتا ہے۔

چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ قران کریم میں ارشاد فرماتا ہے"اور آخرت کے لیے بھی تیاری کرو، اور دنیا سے بھی اپنا حصہ نہ بھولو، اور احسان کرو جیسے اللہ نے تم پر احسان کیا ہے، اور زمین میں فساد مت مچاؤ۔" (سورۃالقصص: 77) اس آیت میں واضح طور پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے دین و دنیا کے توازن کو بیان فرمایا ہے، اس آیت کی تفسیر میں مفسرین لکھتے ہیں کہ دنیا کے حصے سے مراد دنیا کی عمر اور اس میں کیے ہوئے وہ اعمال ہیں جو اسے آخرت میں کام آئیں جس میں صدقہ خیرات بھی داخل ہے اور دوسرے اعمال صالحہ بھی، بعد مفسرین فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ تمہیں دیا ہے، اس سے آخرت کا سامان کرو، مگر اپنی ضروریات ِدنیا کو بھی نہ بھلاؤ کہ سب صدقہ خیرات کر کے کنگال بن جاؤ، بلکہ بقدرِ ضرورت اپنے لیے بھی رکھو(مستفادازمعارف القرآن،6ص666)

احادیث مبارکہ سے بھی ہمیں یہ تعلیم ملتی ہے کہ مسلمان کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ دین اور دنیا میں توازن کو لے کر زندگی گزارے، چنانچہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "تمہارے جسم کا تم پر حق ہے، تمہاری آنکھ کا تم پر حق ہے، تمہاری بیوی کا تم پر حق ہے۔ پس ہر ایک کا حق ادا کرو۔"(بخاری،مسلم) دوسرے مقام پررسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔"(شعب الایمان للبیہقی)

حضرت انس ؓ فرماتے ہیں:"تین آدمیوں نے نبی اکرم ﷺ کی عبادت کا حال پوچھا، ایک نے کہا میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا، دوسرے نے کہا، میں پوری رات نماز پڑھوں گا، تیسرے نے کہا، میں نکاح نہیں کروں گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں، لیکن میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور کھاتا بھی ہوں، نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، نکاح بھی کرتا ہوں۔ 

پس جو میری سنّت سے منہ موڑے وہ مجھ سے نہیں۔"(بخاری، مسلم) ایک اور روایت میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اگر کوئی آدمی اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے اور اس کا مقصد اللہ کی رضا ہو تو یہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے۔"(بخاری، مسلم) آپ ﷺ نے فرمایا: "کسی نے اپنی کمائی سے بہتر کھانا نہیں کھایا، اور اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے۔"(صحیح بخاری)

ان احادیث سے یہ بات واضح طور پر نظر آتی ہے کہ اسلام میں دین اور دنیا کے درمیان توازن مطلوب ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہر حق کا ادا کرنا ضروری ہے، خواہ وہ بدن کا ہو، بیوی کا یا عبادت کا۔ یہ تعلیم ہمیں اعتدال کا راستہ دکھاتی ہے۔دنیا کی محنت اور کوشش کو بھی اسلام نے عبادت قرار دیا ہے ،بشرطیکہ نیت اللہ کی رضا ہو۔

اہل و عیال پر خرچ کرنا بھی عبادت ہے۔ خود محنت کرکے کمانا افضل اور انبیاء کی سنت ہے۔ اسی طرح دنیاوی نعمتوں سے فائدہ اٹھانا بھی جائز ہے، بشرطیکہ وہ حدودِ شریعت میں ہو۔ دنیا کو ترک کرنا مقصود نہیں، بلکہ اسے آخرت کی کھیتی بنانا مقصود ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے صحابہؓ کو انتہا پسندی سے روکا اور اعتدال اختیار کرنے کی تعلیم دی۔آپ ﷺ نے اپنی سنت کے ذریعے عملی توازن دکھایا کہ نکاح کیا، کھانا کھایا، آرام بھی کیا اور عبادت بھی کی۔

یہی حقیقی توازن ہے۔ دنیا کو مقصود بنانا گمراہی ہے اور آخرت کو بھلا دینا خسارہ ہے۔ اللہ نے دعا بھی یہی سکھائی کہ دنیا میں بھلائی ہو اور آخرت میں بھی بھلائی ہو۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دونوں کی ضرورت ہے، مگر اصل غایت آخرت ہے۔دنیا آخرت کی کھیتی ہے اور اس کے بغیر آخرت کی تیاری ممکن نہیں۔

وہ دنیا مذموم ہے جو انسان کو اللہ کی یاد سے غافل کر دے۔ ایسی دنیا جس میں انسان صرف مال جمع کرنے میں لگا رہے اور آخرت کو بھلا دے۔ وہ دنیا جس میں غرور، تکبر اور فسق و فجور ہو۔ ایسی دنیا جس میں حلال و حرام کی پروا نہ کی جائے۔وہ دنیا جس میں انسان دل لگا بیٹھے اور اسے مقصدِ حیات بنا لے۔ ایسی دنیا جو آخرت کی تیاری سے روک دے اور دین پر عمل میں رکاوٹ بن جائے۔

وہ دنیا جس میں انسان نافرمانی، ظلم اور فتنہ میں مبتلا ہو۔ ایسی دنیا جس کی محبت انسان کے دل پر غالب آجائے۔ وہ دنیا جو قبر اور آخرت کی یاد کو بھلا دے۔ایسی دنیا مذموم ہے جس نے انسان کو اللہ اور رسول ﷺ سے دور کر دیا ہو۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)