ہر حال میں صبر و استقامت، دین سے وابستگی اور تسلیم و رضا اہلِ ایمان کی علامت اور بندگانِ خدا کی بنیادی نشانی ہے، صبر و شُکر ہی بندۂ مومن کا وہ ہتھیار ہے، جسے وہ ہمیشہ تھامے رکھتا ہے، تقدیر کے فیصلوں پر راضی رہنا، اُنہیں تسلیم کرنا اور صبر و استقامت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنا، اہلِ ایمان کا شِعار ہے۔ وہ آزمائش کی ہر گھڑی اور امتحان میں اللہ سے اپنے تعلّق کو اُستوار رکھتے ہیں۔ اُسی سے اپنی اُمیدیں وابستہ کرتے اور اُسی سے لَو لگاتے ہیں۔
قرآنِ کریم میں ارشادِ ربّانی ہے: (ترجمہ) ’’اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے، کسی قدر خوف، بُھوک، مال اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے، تو (آزمائش کی اس گھڑی میں) صبر کرنے والوں کو اللہ کی خُوشنودی کی بشارت سُنا دیجیے کہ جب اُنہیں کوئی (آزمائش اور) مصیبت پیش آتی ہے تو وہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ کی ملکیت ہیں اور ہم اُسی کی طرف لوٹنے والے ہیں، اُن پر اُن کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘ (سُورۃ البقرہ / 155۔ 157)
ایک اور مقام پر فرمایا گیا: ’’ہاں، جنہوں نے صبر کیا اور نیک عمل کیے، یہی ہیں جن کے لیے بخشش اور اجرِ عظیم ہے۔‘‘ (سُورۂ ہُود /11)رسولِ اکرم ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے،’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میں اپنے کسی مومن بندے سے اہلِ دنیا میں سے اُس کے کسی عزیزکی رُوح قبض کرلیتا ہُوں، پھر وہ اس پر صبر کرتا ہے اور ثواب کی اُمید کرتا ہے تو اُس کے لیے جنّت کے سوا میرے پاس کوئی اجر نہیں۔‘‘ (صحیح بخاری)
محکمہ موسمیات اور قدرتی آفات کے اداروں کی رپورٹس کے مطابق صرف گزشتہ چند دنوں میں صوبہ خیبر پختونخوا اور پنجاب میں بارشوں اور سیلاب کے باعث متعدد افراد جاں بحق، ہزاروں مکانات منہدم اور زمین بوس ہوئے۔ لاکھوں ایکڑ فصلیں تباہ ہو گئیں، ہزاروں مویشی بہہ گئے۔
درجنوں سڑکیں اور پل ٹوٹنے کے باعث علاقے کٹ کر رہ گئے۔ اسپتالوں اور تعلیمی اداروں کی عمارتیں متاثر ہوئیں۔ سب سے زیادہ متاثر خواتین، بچے اور ضعیف العمر افراد ہیں جو کھلے آسمان تلے بیماریوں اور فاقہ کشی کا شکار ہیں۔ یہ اعداد و شمار محض رپورٹ نہیں بلکہ انسانی المیے کی تصویر ہیں۔متاثرین کی ضروریات پرفوری توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔
یہ ملکی تاریخ کا بدترین سانحہ اور اسلامیانِ پاکستان کے لیے سخت آزمائش کا لمحہ ہے۔ قیامت کی اس گھڑی میں گناہوں پر ندامت، توبہ و مناجات،خصوصی دُعاؤں کے اہتمام اور اللہ کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔ کاش، ہم اس آزمائش اور تنبیہ پرکان دھریں اور اسے اپنی اصلاح کا ذریعہ بنالیں۔
آزمائش کے اس لمحے اور قیامت خیز گھڑی میں گناہوں پر ندامت، توبہ کا دامن تھامنے اور اللہ کی طرف رجوع کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ وہ رحمٰن و رحیم، غفور الرحیم پروردگار بہت زیادہ بخشنے والا، گناہوں کو معاف کرنے والا اور توبہ کو قبول کرنے والا ہے۔
گناہ گار اور خطا کار ہونے کے باوجود اگر انسان کا دل نیکی اور توبہ کی طرف مائل ہو تو اُس کے لیے رحمت، مغفرت اور توبہ کا دروازہ بند نہیں ہوتا۔ اللہ کی بارگاہ تک رسائی میں مایوسی اور نااُمیدی کی کوئی تاریک گھاٹی نہیں، البتہ گناہوں پر ندامت، خُلوص اور صداقت شرط اول ہے۔
اس حوالے سے قرآنِ کریم میں ارشادِ ربّانی ہے: ’’(اے پیغمبرﷺ) آپﷺ کہہ دیجیے کہ اے میرے بندو، جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے نااُمید نہ ہونا، اللہ تو تمام گناہ بخش دیتا ہے، (اور) وہ تو بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ (سُورۃ الزمر آیت 53) ایک مقام پر فرمایا گیا :’’اور جو شخص گناہ کے بعد توبہ کرلے اور نیکو کار ہوجائے تو اللہ اُسے معاف کردے گا، کچھ شبہ نہیں کہ اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ (سُورۃ المائدہ، آیت 39)
رسولِ اکرم ﷺ نے ایک حدیثِ قدسی میں بیان فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جو بندہ میرا قرب حاصل کرنے کے لیے اور میری اطاعت و فرماں برداری کی راہ میں میری طرف بالشت بھر آگے بڑھتا ہے، میں اُس کی طرف ہاتھ بھر بڑھتا ہوں، اور جو میری طرف ہاتھ بھر آگے بڑھتا ہے، میں گز بھر اُس کی طرف بڑھتا ہوں، اگر میرا بندہ چلتا ہوا میری طرف آئے تو میں دوڑتا ہوا اُس کی جانب بڑھتا ہوں۔‘‘ ارشادِ نبویؐ کے مطابق گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہے،گویا اُس نے گناہ کیا ہی نہیں۔ (سنن ابنِ ماجہ)
بیش تر مواقع پر قدرتی آفات اور آسمانی مصائب اللہ کی طرف سے مقررکردہ طرزِ زندگی سے انحراف، سرکشی اور بغاوت کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ یہ درحقیقت اللہ کی جانب سے انتباہ اور یاد دہانی ہوتے ہیں کہ اللہ کے احکام کی خلاف ورزی اور اُس کی نافرمانی چھوڑکر اللہ کے دامنِ رحمت میں پناہ تلاش کی جائے۔ ’’سُورۂ توبہ‘‘ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ ہم اُنہیں سال میں ایک دو مرتبہ کسی نہ کسی آزمائش میں مبتلا کردیتے ہیں، کیا یہ یاد دہانی بھی انہیں اس بات پر آمادہ نہیں کرتی کہ اپنے گناہوں سے توبہ کریں اور نصیحت پکڑیں۔‘‘(سُورۃ التوبہ / 126)
ہمیں یہ حکم ہے کہ اللہ کی رحمت سے کسی صورت اورکبھی بھی مایوس نہ ہوں، اُس کے دامنِ رحمت سے وابستہ رہنے، دین پر عمل کرنے، عبرت و نصیحت حاصل کرنے میں ہی عافیت ہے۔ اللہ کی رحمت کا دامن جس قدر وسیع ہے، اُس کے عفو وکرم اور درگزر کا بھی کوئی ٹھکانہ نہیں۔ یہاں تک کہ وہ اپنی رحمت سے مایوس ہوجانے والوں سے بھی ناراضی کا اظہار فرماتا ہے، اس حوالے سے ارشاد ہوا: ’’اللہ کی رحمت سے صرف گُم راہ ہی مایوس ہوسکتے ہیں۔‘‘ (سُورۃ الحجر / 56)
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم خود فراموشی، خدا فراموشی، دین سے انحراف، گناہوں سے آلودہ زندگی، اللہ کے احکام، اُس کی تعلیمات، قرآن و سنّت اور اسلامی نظام سے بغاوت اور اس کی مخالفت چھوڑ کر دین کے دامن میں پناہ لیں۔ اسلامی اقدار اور تعلیمات سے اپنے تعلّق اور رشتے کو مضبوط کریں۔
قرآن و سنّت کے منافی قوانین ،اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ سودی نظام معیشت اور اسلامی ضابطۂ حیات کے منافی امور سے اجتناب کریں۔ اس عہد کی تجدید کریں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی نظریاتی اساس پر قرآن و سنّت کے نظام کو قائم کریں گے کہ یہی درحقیقت ہماری دین و دنیا کی کامیابی، امن و سلامتی، آخرت میں سُرخروئی اور نجات کی یقینی ضمانت ہے۔
دوسری طرف ہمیں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ہم محسنِ انسانیت، نبی رحمت ﷺ کے اُمتی ہیں۔ آپﷺ رحمت و شفقت، ایثار و ہمدردی کے پیکر تھے، انسانیت کی خدمت، اُس کی فلاح، اسے دین کی راہ پرگامزن کرنا، توحید کے نُور سے منورکرنا اور خدمتِ خلق کا جذبہ دل میں ہمیشہ موجزن رکھنا، آپﷺ کے اُسوۂ حسنہ اور سیرتِ طیبّہ کا امتیازی پہلو اورآپﷺ کی تعلیمات کا ایک روشن باب ہے۔
مشکل کی اس گھڑی، آزمائش کے اس لمحے اور قومی و ملّی زندگی کے اس موڑ پر ہمیں یک جان ہوکر اپنے ہم وطن سیلاب زدگان بُزرگوں، ماؤں، بہنوں، بھائیوں، معصوم بچّوں، بے سہارا افراد اور دیگر متاثرین کو یاد رکھنا چاہیے، بڑھ چڑھ کر اور دل کھول کر ان کی ہر ممکن مدد کرنی چاہیے۔
یہ خدمتِ خلق اور انفاق فی سبیل اللہ کا اہم مصرف ہے، ان کی بڑھ چڑھ کر مدد کرنا ہمارا دینی، ملّی اور قومی فریضہ ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، ’’پوری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے، اور اللہ کے نزدیک محبوب ترین وہ ہے، جو اُس کے کنبے سے اچھا سلوک کرتا ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ/باب الشفقۃ و الرّحمۃ علی الخلق)
حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’تم ایمان داروں کو باہمی محبّت اور مہربانی میں ایک جسم کی مانند دیکھو گے، جب جسم کے کسی عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو تمام بدن کے اعضاء بیماری اور تکلیف کے زیرِ اثر آجاتے ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم/باب تراحم المومنین)
حضرت ابنِ عمرؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، وہ نہ اُس پر ظلم کرتا ہے، نہ اُس سے کنارا کرتا ہے، جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی حاجت براری میں مصروف رہے، اللہ تعالیٰ اُس کی حاجت براری کو پورا کرنے میں رہتا ہے اور جس کسی نے کسی مسلمان کا ایک دُکھ بانٹا، اللہ تعالیٰ نے روزِ قیامت کی مشکلات میں سے اُس کی ایک ایک مشکل کو دُور کردیا اور جس کسی نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی، اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اُس پر پردہ ڈالے گا۔‘‘ (صحیح بخاری/باب لایظلم المسلم)
ایثار و ہمدردی، باہم اخوت و محبت ،انفاق فی سبیل اللہ سے متعلق اسلام کی یہ سُنہری تعلیمات ہمیں اس بات پر آمادہ کرتی ہیں کہ ہم حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں ملک و قو م کو پہنچنے والی مشکل اور آزمائش کی اس گھڑی میں سیلاب متاثرین کی ہر طرح مدد کریں، اس موقع پر خدمتِ خلق، فلاحِ انسانیت، ایثار و ہمدردی کے اُن جذبات کا مظاہرہ کریں، جو ہمارے دین کا شِعار اور ہماری دینی، مِلّی اور تہذیبی اقدار کی روح ہیں۔
اس موقع پر ہمیں جسدِ واحد اور تسبیح کے دانوں کی طرح متّحد ہوکر اخوّت و اجتماعیت، یگانگت اور دینی و مِلّی اتّحاد کا بھرپورمظاہرہ کرنا چاہیے۔ موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر ایثار و قربانی سے سرشار ہوکر انفاق فی سبیل اللہ کے جذبے کو عام کریں۔ حالیہ سیلاب اور اس کے نتیجے میں غربت و افلاس کا شکار اور بے گھر ہوجانے والے اپنے بھائیوں کی بھرپور مدد کریں۔ آزمائش اور مصیبت کی اس گھڑی میں ان کا دست و بازو اور سہارا بنیں۔ ان کی دل و جان سے بھرپور مدد کریں۔