آپ کے مسائل اور اُن کا حل
سوال:1.لاٹری کی رقم انعام ہے یا سود ؟2.یہ جو پرائز بانڈز کے نمبر معاوضہ دےکر اندازے سے لکھوائے جاتے ہیں اور وہ نمبر آجائے تو اچھی خاصی رقم دی جاتی ہے، تو یہ انعامی رقم ہے یا سودی رقم ہے ؟
جواب:1.لاٹری درحقیقت سود اور جوے پر مشتمل ہوتی ہے ، "سود" اس طور پر کہ شرعاً "سود" اس اضافے کو کہتے ہیں جو ہم جنس مال (نقدی، مکیلی یا موزونی چیز ) کے تبادلے میں بغیر عوض آئے اور عقد کے وقت مشروط ہو، پس مثلًا پانچ سو روپے کی لاٹری میں اگر انعام کے نام سے ملنے والی رقم نکل آئے تو پانچ سو روپے سے زائد جتنی بھی رقم ہے، وہ ساری کی ساری بلا عوض ہے جو کہ عین سود ہونے کی وجہ سے لینا حرام ہے۔ اور اس میں "جوا" اس طور پر ہے کہ شرعاً "جوا" مال کو واپس ملنے نہ ملنے کے خطرے میں ڈالنے کو کہا جاتا ہے، پس لاٹری میں لگائی گئی کل رقم ڈوب جانے کا قوی اندیشہ ہوتا ہے اور نہ ڈوبنے کا بھی امکان ہوتا ہے، اور دوسرے بہت سے لوگوں کا لگایا ہوا مال سمیٹ کر لے آنے کا بھی امکان ہوتاہے۔
2.پرائز بانڈ کی خرید وفروخت اور اس پر ملنے والا انعام ناجائزا ور حرام ہے، اس میں ’’سود‘‘ اور ’’جوا‘‘ پایا جاتا ہے۔ پرائز بانڈز میں ’’سود‘‘ کا وجود تو بالکل ظاہر ہے، کیوں کہ سود کی حقیقت یہ ہے کہ مال کا مال کے بدلے معاملہ کرتے وقت ایک طرف ایسی زیادتی مشروط ہو جس کے مقابلے میں دوسری طرف کچھ نہ ہو ،بعینہ یہی حقیقت بانڈز کے انعام میں بھی موجود ہے، کیوں کہ ہر آدمی مقررہ رقم دے کر پرائزبانڈز اس لیے حاصل کرتا ہے کہ اس سے قرعہ اندازی میں نام آنے پر اپنی رقم کے علاوہ زیادہ رقم مل جائے، اور یہ زائد اور اضافی رقم سود ہے، کیوں کہ شر یعت میں ایک جنس کی رقم کاتبادلہ اگر آپس میں کیا جائے تو برابری کے ساتھ لین دین کرنا ضروری ہوتا ہے، کمی بیشی کے ساتھ لین دین کرنا سود ہے، اسی طرح سود کی ایک اور حقیقت جو قرآن کریم کے نازل ہونے سے پہلے بھی سمجھی جاتی تھی، وہ یہ تھی کہ قرض دے کر اس پر نفع لیاجائے، سود کی یہ حقیقت ایک حدیث میں ان الفاظ کے ساتھ آئی ہے ”كلّ قرض جرّ منفعة فهو ربوا “
یعنی ہر وہ قرض جو نفع کمائے، وہ سود ہے، لہٰذا اس سے ثابت ہوا کہ جو زیادتی قرض کی وجہ سے حاصل ہوئی ہو، وہ بھی سود میں داخل ہے، اور سود کی یہ حقیقت بانڈز کے انعام پر بھی صادق آتی ہے، کیوں کہ بانڈز کی حیثیت قرض کی ہوتی ہے، حکومت اس قرضے کو استعمال میں لاتی ہے اور قرضے کے عوض لوگوں سے ایک مقررہ مقدار میں انعام کا وعدہ کرتی ہے اور پھر قرعہ اندازی کے ذریعے انعامی رقم کے نام سے سود کی رقم لوگوں میں تقسیم کردی جاتی ہے، جو ناجائز اور حرام ہے۔
3.اسی طرح پرائزبانڈ ز میں ’’جوا‘‘ بھی شامل ہے اور ’’جوا‘‘ ہر وہ معاملہ ہے جو نفع و ضرر کے درمیان دائر ہو، یعنی یہ احتمال بھی ہو کہ معمولی رقم کے عوض میں بہت سارا مال مل جائے اور یہ بھی احتمال ہو کہ کچھ نہ ملے، یہی صورتِ حال پرائز بانڈ کی خرید و فروخت میں پائی جاتی ہے، کیوں کہ پرائز بانڈ خریدنے والے کی یہ طمع ہوتی ہے کہ اس کے بدلے ایک خطیر رقم وصول ہو جائے، اب اس میں یہ احتمال بھی ہوتا ہے کہ واقعتًا بڑی رقم حاصل ہوجائے اور یہ بھی احتمال ہوتا ہے کہ اس کے بدلے کوئی اضافی رقم وصول نہ ہو، لہٰذا جب یہ معاملہ ابتدا میں خطرے میں رہا، اس لیے اس میں ’’جوا‘‘ پایا گیا جو شرعاً حرام ہے۔