• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آنیوالی ریاست، 76سال بعد، آج بھی اپنی شناخت کی جستجو میں سر گرداں، 7دہائیوں سے طالع آزماؤں کی نیٹ پریکٹس بن چکی ہے۔ میں ٹھہرا ایک ڈھنڈورچی، جس نظریہ پر مملکت نے استوار ہونا تھا، اسکی تلاش میں اپنی جوانی دیانتداری سے غرق رکھی اور اب پیرانہ سالی میں’’مملکت ڈوبتے دیکھ رہا ہوں‘‘،آہ و بکا کیوں نہ کروں ،کیونکر خاموش رہوں؟ قرآن کریم میں زیر عتاب قوموں کی جتنی خصلتیں درج  ہیں، من و عن مملکت خداداد کے 24کروڑ 60 لاکھ ( معدودے چند لاکھ برطرف) میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ جدید مہذب معاشروں کے جتنے اعلیٰ و ارفع معیار اقدار ،صلہ رحمی، انسانی حقوق ، اخلاقی وقانونی ضوابط، قانون کی حکمرانی ، ادائیگی ٹیکس اورتہذیب و تمدن کے پیمانے، بحیثیت قوم ہم اسکو روند چکے ہیں۔ کرپشن، جھوٹ، چوری، فواحش، حسد ، غیبت، لاقانونیت، فراڈ، ملاوٹ، نوسر بازی، دھوکا دہی، جعلسازی، منافقت کونسا ایساہنر، جس میں کسب کمال نہ ہو۔ ہر کوئی جہاں جس جس مد میں گوڈے گوڈے ملوث ، ڈھٹائی سے انہی مدوں پر شاکی ہے ۔آج وطن عزیز کے مستقبل کیساتھ سوال ایک ہی نتھی ،’’ 8 فروری کو الیکشن ہو پائینگے یا نہیں‘‘ ؟ ۔ پچھلے چھ ماہ کے واقعات کا اجمالی جائزہ لیں ۔ یادش بخیر، چند ماہ پہلے اچانک خبر آئی کہ نواز شریف فریضہ حج کیلئے جون کے آخری ہفتہ سعودی عرب پہنچ رہے ہیں ۔ چند دن بعد نوازشریف جدہ کی بجائے دبئی پہنچ گئے جبکہ اسی دن زرداری صاحب مع بلاول دبئی پہنچ چکے تھے۔ وہاں پر نواز/ زرداری کی اہم میٹنگ بارے جب بریکنگ نیوز آئی تو ساتھ ہی میڈیا کے کان کھڑے ، پلکیں بلند ہو گئیں ۔ اگلے دن جیو TV پر جب میٹنگ زیر بحث آئی تو میرا جواب مختصر ،’’ استحکام پاکستان پارٹی کی ایک دم تشکیل سیاسی جماعتوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے ،علاوہ ازیں دونوں قائدین یا تو موجود اپنی حکومت کی توسیع چاہتے ہیں یا بصورت دیگر الیکشن ملتوی ہوتے ہیں تو نگران سیٹ اپ اپنی مرضی کا چاہتے ہیں‘‘۔ جب بلوچستان سے محمد مالک اور اسحاق ڈار کا نام بطور وزیراعظم سامنے آیا تو شک نہ تھا کہ نواز زرداری گٹھ جوڑ ( UNDERSTANDING ) کا نتیجہ ہے ۔ اگست کے پہلے ہفتے مشترکہ مفادات کونسل (CCI ) کی اچانک بیٹھک ہوئی ، یک نکاتی ایجنڈا،’’مردم شماری کے نتائج شائع کرنا تھے‘‘ ۔ مردم شماری رزلٹ شائع ہونے پر نئی حلقہ بندیاں ایک آئینی ضرورت ، الیکشن ملتوی ہونا دیوار پر کندہ تھا ۔ سانحہ 9 مئی کے بعد میرا موقف حتمی ،’’بصورت الیکشن ، اگر تحریک انصاف الیکشن میں موجود ہوئی تو پھر وہ عمران خان کے زیر اثر نہیںہو گی ۔مزید ، عام انتخابات میں سیٹوں کی بندر بانٹ یقینی رہے گی ( بعینہ جیسے 2018 میں حصہ بقدر جثہ )۔یہ بات بھی طے سمجھیں ، اگلے وزیراعظم نواز شریف ہونگے‘‘ ۔ جب نگران حکومتیں وجود میں آئیں تو اسٹیبلشمنٹ نے بنفس نفیس اپنی سہولیات اور خواہشات کےمطابق تشکیل دیں ۔یعنی کہ دونوں قائدین کے مطالبات ثمر آور نہ ہوئے ۔اسٹیبلشمنٹ کوئی مطالبہ کسی خاطر میں نہ لائی تاکہ آنیوالے دنوں کی سیاسی حکمت عملی عین اپنے مطابق رکھ سکے۔ میرے خدشات آج بھی ،’’فروری مارچ میں بھی الیکشن نہیں ہو سکیں گے‘‘ ۔وجہ صاف ظاہر ہے ، سانحہ 9 مئی کے بعد’’اصلی تے نسلی‘‘ تحریک انصاف عملاً معذور ہو چکی تھی ۔ساری قیادت یا جیل میں یا معافی تلافی یا زیر زمین تھی ۔ سیاسی حالات اسٹیبلشمنٹ کے عین مطابق اور عام انتخابات کرانے کے موافق تھے ۔ مرضی کے نتائج بھی ممکن تھے ۔کوئی وجہ تو ہوگی کہ مردم شماری کے نتائج شائع کر کے الیکشن ملتوی کروانا پڑے ۔ اب جبکہ الیکشن کمیشن نے 8فروری کی تاریخ دے دی اور سپریم کورٹ نے اس پر مہر تصدیق بھی ثبت کر دی ، میرا سوال ! کیا 8 فروری تک ملتوی کرنے کی’’وجہ‘‘درست ہو چکی ؟ میری سوئی وہیں پہ اٹکی ہے کہ’’فروری میں الیکشن نہیں ہو پائیں گے‘‘۔ مجھے اس سے غرض نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ یقیناً آج سیاہ و سپید کی مالک ، دلجمعی اور خلوص نیت سے الیکشن کروانا چاہتی ہے ۔ سیاسی جماعتیں خصوصاً پیپلز پارٹی بھی شدومد سے الیکشن کی متمنی ۔ تحریک انصاف اپنی مقبولیت کے زعم میں الیکشن کے لئے تڑپ رہی ہے ،بد قسمتی! الیکشن شاید نہ ہو پائیں۔ اگر ساری سہولت کے باوجود،’’ 8نومبرتک الیکشن نہ کروائے گئے تو اسکی کوئی وجہ نزاع تو تھی؟کیا آج وہ’’وجہ نزاع‘‘دور ہو چکی ہے؟۔میرا خدشہ ، کہ وہ’’ وجہ نزاع‘‘ نہ صرف موجود بلکہ شدت پہلے سے بھی کچھ زیادہ ہے ۔ اگرچہ تحریک انصاف برضا و رغبت اسٹیبلشمنٹ کے زیر اثرآ چکی، اسٹیبلشمنٹ کیلئے آسودگی کا سماں ہے ۔ عثمان بزدار کی طرح گوہر علی خان نووارد ضرور ، اچانک آئے اور چھا گئے ۔باقی اکثر عہدیدار بھی اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ، عمران خان کے اردگرد موجود درجن بھر وکلابھی اسٹیبلشمنٹ کی گڈ بکس میں ہیں۔ گوہر علی خان ، علی امین گنڈا پور ، حلیم عادل شیخ جیسے سلیقہ شعار ی ، معاملہ فہمی ، مفاہمتی ہی تو اسٹیبلشمنٹ کے گوشہ عافیت کے متعلقین ہیں ۔ ایسے ہی جیسے 12 اپریل 2022ءکو مسلم لیگ ن شہباز شریف کی قیادت میاں نواز شریف کی مرضی کے عین مطابق جنرل باجوہ کی کفالت میں منتقل ہو گئی تھی ۔’’پروجیکٹ نئی تحریک انصاف‘‘کو کے پی میں اور سند ھ میں کھل کر سیاست کرنے کی اجازت مل چکی ہے ۔ کے پی میں تحریک انصاف کے ورکرز دل کی خوب بھڑاس نکال رہے ہیں ۔ اسٹیبلشمنٹ نئے عہد و پیماں متاثر ہوئے بغیرPTI کا سیاسی گہما گہمی پر اترانا بنتا ہے ۔ اگر الیکشن ہو گئے تو کئی درجن سیٹیں بھی ملیں گی ۔ازراہِ تفنن ، سیاسی جماعتوں کے درمیان 70 سال سے جو خون ریز جنگ جاری ہے ، اسکی وجہ تو اسٹیبلشمنٹ ہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو کریڈٹ ، ایک دوسرے کی تکہ بوٹی کرنیوالی تمام سیاسی جماعتوں کا اسٹیبلشمنٹ کیلئے باجماعت نیک خواہشات و جذبات رکھنا ، انکے اورمملکت کیلئے نیک شگون ہے ۔ معیشت میں حرکت حوصلہ افزا اور خوش آئند ضرور، اسکی برکت اسٹیبلشمنٹ ہی سمیٹے گی ۔ اگرچہ اکانومی کی بحالی بھی الیکشن میں رکاوٹ بننی ہے ۔ عمران خان کی موجودگی رنگ میں کیا بھنگ ڈالے گی؟خاطر جمع ، جب تک عمران خان کے مقدمات عدالتوں میں ، انتخابی مہم بگاڑ کی زد میں ہی رہنی ہے ۔ میری مانیں !الیکشن کے انعقاد سے پہلے ، ماحول ہی نہیں بن پائے گا۔

تازہ ترین