سپریم کورٹ نے ماضی میں نااہل قرار دیے گئے سیاسی رہنما کے خلاف مقدمے کی سماعت کے دوران تا حیات نا اہلی کا معاملہ 5 رکنی بینچ کی تشکیل کے لیے ججز کمیٹی کو بھیج دیا۔
سپریم کورٹ میں میر بادشاہ قیصرانی کی نااہلی کے کیس پر سماعت کے دوران تاحیات نااہلی سے متعلق پانامہ کیس اور الیکشن ایکٹ میں ترامیم بھی زیرِ بحث آئیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ میر بادشاہ قیصرانی کو نااہل کیوں کیا گیا؟
درخواست گزار کے وکیل ثاقب جیلانی نے جواب دیا کہ میر بادشاہ قیصرانی کو جعلی ڈگری کی بنیاد پر 2007ء میں نااہل کیا گیا تھا لیکن ہائی کورٹ نے 2018ء کے انتخابات لڑنے کی اجازت دے دی تھی۔
عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ مقدمے کی سماعت جنوری 2024ء میں عام انتخابات سے پہلے ہو گی، اس مقدمے کو انتخابات میں تاخیر کی وجہ نہیں بنایا جائے گا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ موجودہ کیس 2018ء کے انتخابات سے متعلق ہے، اب نئے انتخابات سر پر ہیں تو یہ لائیو ایشو کیسے ہے؟ اس کیس سے موجودہ انتخابات متاثر ہوں گے۔
یاد رہے کہ میر بادشاہ قیصرانی کو آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل کیا گیا تھا۔
کیس پر کارروائی کی تفصیل
سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل، تمام صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کر دیے۔
سپریم کورٹ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کیس کی سماعت جنوری 2024ء میں ہوگی، موجودہ کیس انتخابات میں تاخیر کے آلے کے طور پر استعمال نہیں کیا جائے گا، موجودہ کیس کا نوٹس انگریزی کے دو بڑے اخبارات میں شائع کیا جائے۔
درخواست گزار کے وکیل ثاقب جیلانی نے کہا کہ موجودہ کیس کا اثر آئندہ انتخابات پر بھی ہو گا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اگر کسی کی سزا ختم ہو جائے تو تاحیات نااہلی کیسے برقرار رہ سکتی ہے؟
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ جھوٹے بیان حلفی پر کاغذات نامزدگی جمع کرانے والے کو نااہل ہی ہونا چاہیے، سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح پر پاناما کیس میں فیصلہ دے دیا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کی تاحیات نااہلی پر دو آراء ہیں، نیب کیسز میں اگر تاحیات نااہلی کی سخت سزا ہے تو قتل کی صورت میں کتنی نااہلی ہوگی؟
اس پر درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ قتل کے جرم میں بھی سیاستدان کو نااہلی 5 سال ہی کی ہو گی۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ بچے کے ساتھ زیادتی جیسے سنگین جرم کی سزا بھی پانچ سال نااہلی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ تاحیات نااہلی اور آرٹیکل 62 ون ایف سے متعلق کوئی نیا قانون بھی آچکا ہے؟
اس پر وکیلِ صفائی نے کہا کہ حال ہی میں الیکشن ایکٹ میں ترمیم کر کے نااہلی کی زیادہ سے زیادہ مدت 5 سال کر دی ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کر کے پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے فیصلے کا اثر ختم کرسکتی ہے، الیکشن ایکٹ میں سیکشن 232 شامل کر کے سپریم کورٹ کا آرٹیکل 62ون ایف کا فیصلہ غیر مؤثر ہو چکا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کسی نے چیلنج نہیں کیں، جب الیکشن ایکٹ میں ترمیم چیلنج نہیں ہوئیں تو دوسرا فریق اس پر انحصار کرے گا، الیکشن ایکٹ میں آرٹیکل 232 شامل کرنے سے تو تاحیات نا اہلی کا تصور ختم ہو گیا ہے، انتخابات سر پر ہیں، ریٹرننگ افسر، الیکشن ٹریبونل اور عدالتیں اس مخمصے میں رہیں گی کہ الیکشن ایکٹ پر انحصار کریں یا سپریم کورٹ کے فیصلے پر۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کا اطلاق موجودہ انتخابات پر ہوگا، الیکشن ایکٹ میں سیکشن 232 کی شمولیت کے بعد تاحیات نااہلی سے متعلق تمام فیصلےغیر مؤثر ہو گئے۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ امام قیصرانی2007ء کے انتخابات میں گریجویشن کی جعلی ڈگری پر نااہل ہوئے، 2018ء کے عام انتخابات میں میر بادشاہ قیصرانی نے میٹرک کی بنیاد پر کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے، ہائی کورٹ نے میر بادشاہ قیصرانی کو انتخابات لڑنے کی اجازت دی، آرٹیکل 62ون ایف کے تحت میر بادشاہ قیصرانی تاحیات نااہل ہیں اور انتخابات نہیں لڑ سکتے تھے، سپریم کورٹ نے فیصلہ نہ کیا تو نااہلی کے باوجود آئندہ انتخابات لڑیں گے، میر بادشاہ قیصرانی کی سزا کے خلاف اپیل ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے۔
درخواست گزار کے وکیل نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ ہائی کورٹ کو حکم دے کہ اپیل پر فیصلہ کرے۔
کیس پر چیف جسٹس کے ریمارکس
اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ ہائی کورٹ کو حکم نہیں دے سکتی، ہم ہائی کورٹ پر مانیٹرنگ جج نہیں بیٹھے ہوئے، ہم ہائی کورٹ میں زیرالتوا اپیل کے معاملے پر نہیں آئینی معاملے پر فیصلہ کریں گے، آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت پر آئین خاموش ہے، آرٹیکل 63 ون جی میں پاکستان کی تباہی کرنےوالےکی نااہلی 5سال ہے، آرٹیکل 63 ون ایچ میں اخلاقی جرائم پر نااہلی 3سال ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ شادی کے وقت جن شرائط پر رشتہ دیتے ہیں وہ پوری نہ ہوں تو شادی ختم تو نہیں ہوتی، یہ مثال صرف سمجھانے کی غرض سے دی ہے، امین تو صرف ہم ایک ہی شخصیت کو کہتے ہیں باقی کوئی اس درجے پر نہیں پہنچ سکتا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہر شخص ہر وقت سچ تو نہیں بولتا، اصل نااہلی تو آرٹیکل 63 میں ہے، پاکستان کی تباہی کرنے والے کو دوبارہ سیاست میں آنا ہی نہیں چاہیے، مگر پاکستان کی تباہی کرنے والے کی نااہلی بھی 5 سال ہے، آئین کی زبان کو دیکھنا ہوتا ہے ہر چیز آئین میں واضح درج نہیں، جو آئین میں واضح نہیں اس کی سپریم کورٹ تشریح کرسکتی ہے وضاحت نہیں، سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کےسامنے نااہلی کی مدت کا معاملہ نہیں تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے، پارلیمنٹ کی قانون سازی دونوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، پارلیمنٹ کی قانون سازی چلے گی یا سپریم کورٹ کا فیصلہ، اونٹ کسی کروٹ تو بیٹھنا ہے، ایک طرف سپریم کورٹ کافیصلہ ہے دوسری جانب قانون، آر او کس پر انحصار کرے گا؟ انتخابات آ گئے ہیں مگر کسی کو پتہ نہیں وہ الیکشن لڑے گا یا نہیں۔