مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
ماں کے بعد خالہ کا رشتہ ہی وہ رشتہ ہے کہ جس میں خلوص و محبّت اور ایثارو قربانی کا جذبہ وافرملتا ہے۔ میری والدہ، قیصرہ بیگم کی وفات کے چند سال بعد ہی ہماری بڑی خالہ طاہرہ بیگم بھی اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ اُن کے بعد ہماری اب ایک ہی خالہ نائلہ بلال رہ گئی ہیں، اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ اُنھیں تادیر سلامت رکھے۔
خلوص و محبت اور ایثار و قربانی کی پیکر، نائلہ خالہ کے تصوّر ہی سے بے حد پیاربھرا اور ایک بہت مشفق چہرہ نگاہوں کے سامنے آجاتا ہے۔ اپنے تو اپنے، پرایوں کے ساتھ بھی بے حد محبّت و خلوص سے ملتی ہیں۔ ہم تینوں بہنوں کوتو بہت ہی عزیز رکھتی ہیں کہ ان کے لبوں پر ہمارے لیے ہمیشہ دُعائیں ہی رہتی ہیں۔ اگرچہ دوسرے شہر میں مقیم ہیں، مگرہرخوشی غم کے موقعے پر بذریعہ فون ہمارے ساتھ ساتھ ہوتی ہیں۔
ہمارے خالو پاک فوج سے منسلک تھے، کرنل کے عہدے سے ریٹائرمنٹ کے بعد لاہور میں سکونت اختیار کرلی، جب کہ خالہ، مشرقی روایات میں گندھی ایک نہایت نفیس و باوقار خاتون ہیں۔ وہ اپنے ماں باپ کی پیاری بیٹی، شوہر کی ہم دَم، ایک بیٹی اور چار بیٹوں کی بہترین ماں، ساس، سسر کی خدمت گزار، نندوں کی دوست، دیورانی کی ہم راز، سمدھن سے محبّت کرنے والی، نواسے اور پوتوں پرجان نچھاور کرنے والی، بہووں کی مددگار اور سب کو ساتھ لے کر چلنے والی ایک ایسی خاتون ہیں کہ اُن کا ہر روپ مثالی نظر آتا ہے۔ خالو کے ساتھ اُن کی جوڑی خوب جچتی ہے۔ خالو انہیں اکثر بیگم کے بجائے ’’بے غم‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔، جب کہ ہم سب کے لیے وہ شجرِ سایہ دار کی مانند ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس شجر کو ہمیشہ سرسبز و شاداب رکھے۔ (مصباح طیّب، سرگودھا)