سندھ ہائی کورٹ نے کراچی میں پارکنگ اور ٹریفک کنٹرول کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لینے کی ہدایت کر دی۔
سندھ ہائی کورٹ میں غیر قانونی چارجڈ پارکنگ سے متعلق کیس پر جسٹس ندیم اختر نے سماعت کی۔
عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کہاں پارکنگ ہو گی کہاں نہیں اس کے لیے ہمیں آرڈر کیوں کرنا پڑا؟ یہ کام آپ کو خود کرنا چاہیے ہم کیوں آپ سے بار بار کہیں؟
سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ کے ایم سی کو صرف اِن کے زیرِ انتظام سڑکوں پر چارجڈ پارکنگ مختص کرنا چاہیے، کے ایم سی نے کئی ایسی سڑکوں کی فہرست جاری کردی ہے جو ان کے زیر انتظام نہیں ہیں، کے ایم سی کو ٹھیکہ دیتے ہوئے پارکنگ فیس بھی مقرر کرنی چاہیے۔
اس پر جسٹس ندیم اختر نے ڈی آئی جی ٹریفک کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ پارک میں کیسے ریزرو پارکنگ ہو سکتی ہے ؟ پارک کی جگہ پر کوئی پارکنگ نہیں ہونی چاہیے، آپ کو کارروائی کے لیے عدالت کی ہدایت کی ضرورت ہے؟
ڈی آئی جی ٹریفک نے مؤقف اختیار کیا کہ ابھی تک غیر قانونی پارکنگ پر 89 مقدمات درج ہوئے ہیں۔
جسٹس ندیم اختر نے کہا کہ اتنے مقدمات تو 1 گھنٹے میں درج ہونے چاہئیں، آپ نے پورے سال میں یہ کام کیا ہے؟
عدالت نے ٹریفک پولیس اور کے ایم سی کی رپورٹ کو ریکارڈ کا حصہ بناتے ہوئے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہم ریکارڈ کا جائزہ لے کر حکم نامہ جاری کریں گے۔
بعد ازاں عدالت نے غیر قانونی چارجڈ پارکنگ سے متعلق کیس کی سماعت 23 جنوری تک ملتوی کر دی۔