• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: میری بہن کا نکاح ایک لڑکے سے ہوا، نکاح کے بعد پتا چلا کہ لڑکا ہیروئن وغیرہ منشیات کے استعمال کا عادی ہے ، ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی۔ ہم نے بارہا لڑکے سے طلاق کا مطالبہ کیا، لیکن وہ طلاق دینے سے انکار کرتا رہا، پھر ہم نے مجبور ہو کر عدالت سے رجوع کیا اور عدالت کے ذریعے نکاح کو ختم کروا لیا، تو کیا ہم اپنی بہن کا نکاح کہیں اور کراسکتے ہیں ؟ ،(ایک سائل:لاہور)

جواب: واضح رہے کہ اگر مرد ہیروئن ، آئس ، شراب اور اس قسم کے دیگر منشیات کے استعمال کا عادی ہو تو نکاح کی بات کرتے وقت ان عیوب کو لڑکی سے مخفی اور پوشیدہ رکھنا بدترین دھوکا دہی اور فراڈ ہے، پس اگر نکاح کے بعد لڑکی کو ان عیوب کا پتا چلے تو اسے یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنے شوہر سے بذریعہ طلاق علیحدگی اور فرقت حاصل کرلے اور اگر شوہر طلاق دینے پر آمادہ نہ ہو تو وہ عدالتی کارروائی کے ذریعے اپنا نکاح فسخ کرانے کا حق رکھتی ہے۔

علامہ علاء الدین حصکفی حنفی لکھتے ہیں : ترجمہ :بہنسی نے یہ افادہ کیا ہے کہ اگر عورت نے کسی شخص سے اس بنیاد پر نکاح کیا کہ وہ آزاد ہے ، یا مہر یا نفقے کی ادائیگی پر قادر ہے ،پھر وہ اس کے برخلاف ظاہر ہوا(یعنی اپنے نسب کی برتری کا دعویٰ کیا تھا یعنی وہ غلام یا بدمذہب نکلا یا معلوم ہوا کہ وہ مہر یا نفقے کی ادائیگی پر قادر نہیں ہے ) یا اس بنیاد پر نکاح کیا کہ اس نے کہا تھا کہ وہ فلاں بن فلاں ہے پس وہ لقیط یا ولد الزنا ظاہر ہوا تو عورت کو فسخِ نکاح کا حق حاصل ہوگا۔ 

علامہ ابن عابدین شامی اس کے تحت فرماتے ہیں: ترجمہ :میرے لیے اب یہ بات ظاہر ہوئی ہے کہ اس صورت میں عورت کے لیے فسخ نکاح کا ثبوت عدمِ کفاء ت کی وجہ سے نہیں بلکہ دھوکہ دہی کی بنیاد پر ہے ، (رد المحتار مع در المختار ، جلد: 3، ص:502)۔

نیز بعض فقہائے کرام فرماتے ہیں: اگر نکاح کے بعد پتا چلے کہ شوہر کسی ایسی بیماری یا عیب میں مبتلا ہے، جس کے باعث نکاح کے اغراض و مقاصد بری طرح متاثر ہو جائیں اور عورت کے لیے اپنے شوہر کے ساتھ رہنا ناقابل برداشت تکلیف و اذیت کا باعث ہو، تو عورت کو اپنا نکاح فسخ کرانے کا حق حاصل ہے ،خواہ اس عیب کا تعلق جنسی معاملات کے ساتھ نہ ہوں۔ 

علامہ علاء الدین کاسانی لکھتے ہیں: ترجمہ :امام محمدؒ نے فرمایا :نکاح کے لازم ہونے کی ایک شرط یہ ہے کہ مرد ہر ایسے عیب سے خالی ہو کہ جس کی وجہ سے عورت کے لیے اس کے ساتھ رہنا ضرر کے بغیر ممکن نہ ہو ، مثلاً جنون ، جذام اور برص، تو اس قسم کے عیوب کی وجہ سے نکاح کو فسخ کیا جا سکتا ہے، (بدائع الصنائع ، جلد : 2، ص :327) ۔ 

اس عبارت سے معلوم ہوا کہ امام محمدؒ کے نزدیک فسخ ِ نکاح کا جواز فقط جنون اور برص اور جذام کے عیب ہی میں منحصر نہیں ہے۔ ان عیوب و امراض کا ذکر فقط بطورِ مثال ہے ، جبکہ اس بارے میں اصول و قاعدہ یہ ہے: خلوہ من کل عیب لا یمکنھا المقام معہ الا بضرر یعنی لزومِ نکاح کے لیے مرد کا ہر ایسے عیب سے خالی ہونا ضروری ہے کہ جس کی وجہ سے عورت کے لیے مرد کے ساتھ رہنا تکلیف وضرر کے بغیر ممکن نہ ہو۔

حافظ شمس الدین ابن قیم حنبلی لکھتے ہیں: ترجمہ :فقط دو چھ یا سات آٹھ عیوب پر انحصار کرتے ہوئے انھیں فسخِ نکاح کا سبب قرار دینا اور ان سے بڑھ کر یا کم سے کم ان کے مساوی دیگر عیوب کی وجہ سے فسخِ نکاح کو ناجائز قرار دینے کی کوئی معقول وجہ موجود نہیں ہے ، پس قوتِ بصارت یا گویائی سے محروم ہونایا بہرہ ہونا یا دونوں ہاتھوں ، پیروں یا ایک ہاتھ یا پیر کا کٹا ہونا یا مرد کا ان عیوب میں سے کسی عیب میں مبتلا ہونا تنفر و کراہیت کے عظیم اسباب میں سے ہے اور نکاح کی بات کرتے وقت مرد یا عورت کے اس عیب کو بیان نہ کرنا بدترین دھوکا دہی اور فراڈ ہے اور دین کے منافی ہے ، اس لیے کہ جب کسی مرد یا عورت سے نکاح کی بات کی جاتی ہے، تو اس سے ایسا مرد یا عورت مراد ہوتے ہیں، جو عیوب سے سالم اور صحیح ہوں اور یہ بات عرفاً مشروط کے درجے میں ہوتی ہے ، چنانچہ امیر المؤمنین حضرت عمر بن خطابؓ نے ایک بانجھ شخص سے جس نے ایک عورت سے نکاح کیا تھا، فرمایا: تم اپنی بیوی کو بتادو کہ تم بانجھ ہو اور اسے اپنے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا اختیار دے دو۔ 

مزید لکھتے ہیں: معقول بات یہ ہے کہ شوہر یا بیوی میں پایا جانے والا ہر و ہ عیب جو دوسرے فریق کے لیے نفرت کا باعث ہو اور جس کی وجہ سے نکاح مقصد یعنی زوجین کی باہمی الفت و محبت حاصل نہ ہو سکے تو وہ عیب خیارِ فسخ کو ثابت کرتاہے اور نکاح میں مرد و عورت کا عیوب سے خالی ہونا خرید و فروخت سے زیادہ اولیٰ ہے، جیسا کہ نکاح میں لگائی گئی شرائط کو پورا کرنا خرید و فروخت میں لگائی جانے والی شرائط کو پورا کرنے سے اولیٰ ہے اور اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ نے کبھی ایسی چیز کو لازم قرار نہیں دیا کہ جس میں دھوکا اور فریب سے کام لیا گیا ہو پس جو شخص شریعت کے مقاصد و موارد ا س کے مزاجِ عدل و حکمت اور مصالح میں تدبر کرے گا تو اس پر اس قول کا راجح اور قواعدِ شریعت کے قریب ہونا مخفی نہیں رہے گا۔ (زاد المعاد ،جلد: 5، ص:166)

پس صورتِ مسؤلہ میں اگرآپ کا دعویٰ درست ہے کہ شوہر نشے کاعادی ہے اوروہ طلاق دینے پر بھی آمادہ نہیں تھا اور لڑکی نے عدالتی کارروائی کے ذریعے اپنا نکاح فسخ کرالیا ہے تو یہ فسخِ نکاح درست ہے اور لڑکی اپنے شوہر کے نکاح سے خارج ہو گئی ہے۔ 

واضح رہے کہ غیر مدخولہ ایک طلاق سے بائن ہو جاتی ہے اور اس کے ذمے عدت بھی لازم نہیں ہے ، پس وہ چاہے تو کسی اور مرد سے نکاح کر سکتی ہے۔ البتہ جج پر لازم ہے کہ وہ اس الزام کو متحقق کرلے اور اس کی صورت یہ ہے کہ شوہر اعتراف کرلے کہ وہ نشے کا عادی ہے اور اگر شوہر عدالت میں حاضر نہ ہو تو عورت سے اس دعوے کی صداقت پر شرعی گواہ طلب کرے اور پھر اپنے فیصلے میں ان حقائق کو درج کرکے ان کی بناءپر نکاح کو فسخ کرے تو وہ شرعاً مؤثر ہے۔

اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔

tafheem@janggroup.com.pk