• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ہم کے ٹھہرے اجنبی، اتنی مداراتوں کے بعد‘‘، مناجات، قربانیوں، محنت سے حاصل کی مملکت 23سال بعد، ٹھیک 52سال پہلے، 16 دسمبر کو دو لخت ہوئی۔ عقیدہ ہمیشہ سے ایک ہی، سیاسی عدم استحکام کا نتیجہ انتشار، انارکی، افراتفری کے سوا کچھ نہیں ۔ قومیں منتشر اور ملک تحلیل ہو جاتے ہیں۔ سیاسی بحران کی کوکھ سے حکومتی بدانتظامی، اقتصادی تباہی و بربادی، معاشرتی پراگندگی، تفرقہ بازی، لاقانونیت، دفاعی ابتری، سفارتی لاتعلقی جنم لیتے ہیں ۔ جبکہ دوسری طرف سیاسی استحکام رفعتیں بخشتا ہے، عروج ملتا ہے ۔

اپنے فقہ، عقیدہ کے عین مطابق مثالیںحاضر ہیں ۔ دہائیوں پہلے بہ حیثیت قوم، حکمران، ادارے کرپشن کے نستعلیق طریقوں سے ہرگز واقف نہ تھے ۔ خاطر جمع رکھیں، دنیا کے کئی ممالک خصوصاً چین، بھارت، خلیجی ممالک وغیرہ کرپشن میں ایک نام کما چکے تھے، ہم عشر عشیر نہیں تھے۔ اس کے باوجود چین دنیا کی دوسری بڑی اقتصادی طاقت بنا، بھارت تیسری جبکہ خلیجی ممالک کسی طور پیچھے نہیں۔ ان ممالک کا کرپشن اسلئے کچھ نہ بگاڑ سکی کہ مستحکم سیاسی نظام ان میں قدر مشترک ہے ۔ کچھ مثالیں اور بھی نائجیریا، ونیزویلا (اس سے پہلے 20 صدی کا سویت روس ) معدنی ذخائر سے ایسے مالا مال کہ نائجیریا اور ونیزویلا تیل کے ذخائر میں کئی دہائیاں دنیا کے چوتھے پانچویں نمبر پر تھے ۔ ایک طرف خلیجی ممالک کی اقتصادی ترقی ( تیل ذخائر کی بدولت ) آسمان کو چھو رہی تھی جبکہ نائجیریا ، ونیزویلا، سویت روس غربت، بدحالی، ابتری میں غرقاب رہے۔ ان ملکوں کی تباہ حالی کی وجہ کرپشن نہیں انکا سیاسی عدم استحکام تھا۔ استحکام، عدم استحکام قوموں کی عروج و زوال کی لازوال داستان ہے۔

16دسمبر یوم سوگ، احساس زیاں نہ ہو سکا، سانحہ مشرقی پاکستان سے کیسی چشم پوشی ،1970ءکے بعد آنیوالی نسلیں واقف نہیں ہیں۔ اچنبھے کی بات تو نہیں، تکلیف ضرور ،جنوری فروری 1951سے شروع بلی چوہے کے کھیل کا پہلا ڈراپ سین سانحہ مشرقی پاکستان( 16دسمبر 1971ء) ہی تو تھا۔ کیا قائداعظم کے پاکستان کو توڑنے والے مجرم کبھی کٹہرے میں کھڑے ہونگے؟، تاریخ کاسچ، ناممکن ہے۔ پچھلے 71 سال سے وطنی اکھاڑ پچھاڑ کا پرانا آزمودہ فارمولا ایک ہی، ’’سیاسی حکومت نااہل، کرپٹ، سیکورٹی رسک" اسکو ہٹانا فرض اولین بنا۔ ناپ تول کے سازشی نظام پر یہ پیمانہ ہمیشہ پورا اترا۔ جس نظریہ پر مملکت وجود میں آئی پہلی فرصت میں اس نظریہ کو دفنایا، ربط ملت کا ساتھ ہی بیڑا غرق ہونا بنتا تھا۔ افراد کا ہجوم بچ گیا ، قومی وحدت بے معنی ہو گئی۔

خواجہ ناظم الدین ( لیاقت علی خان بھی شاملِ حال ) سے لیکر عمران خان تک، جتنے منتخب وزراء اعظم، سب پر الزام ایک ہی، ’’نااہل، کرپٹ، سیکورٹی خطرہ‘‘ ہیں۔ زورزبردستی نکالے گئے تمام وزرائے اعظم ان تین مدوں میں من و وعن پورے اترے۔ قطع نظر ، کئی موقعوں پر دھتکارے گئے ایسے وزرائے اعظم چند سال بعد دوبارہ مسند اقتدار کے مستحق قرار پائے۔ لیاقت علی کی شہادت ( 16 اکتوبر 1951 ) سے آج 15دسمبر 2023ء تک مملکت دھینگا مشتی کا اکھاڑا بنی ہوئی ہے۔ انواع واقسام کے سیاسی نظام آزمائے، مملکت پر کئی بارجان کنی کا عالم آیا ، سخت جانی ہی کہ بچ نکلیؒ۔ حیف! پچھلے76سال میں فقط 36 سال آئینی یا قانونی ( عمران خان کی حکومت شامل) رہے۔ آئینی تاریخ مضروب، 23مارچ 1956 میں پہلی دفعہ آئین بنا تو 7 اکتوبر 1958ءکو جنرل ایوب خان کے بوٹوں کی نذر ہو گیا۔ میرے نزدیک، پاکستان کا سب سے بڑا قومی مجرم جنرل ایوب خان ہی تو ہے۔ چار جرائم ناقابل معافی:ـ (1) 1951تا 27 اکتوبر 1958 ءتک ہر سازش کا حصہ یا سرغنہ رہا، مزید عسکری قیادت کو شیر پر ایسا سوارکرا گیا کہ70سال بعد آج شیر کی کمر سے اترنا ناممکن، اب اترنا کمزوری اورخطرہ جان ہے۔ (2) سیاسی نظام کو پٹڑی سے ایسا اتارا کہ سیاسی استحکام عسکری قیادت کے وارے میں ہی نہیں ہے۔ (3) تاحیات عسکری قیادت اپنی پہلی ترجیح بنایا، تب سے آنیوالا ہر آرمی چیف اپنے آپکو تاحیات نہیں تو ایک آدھ توسیع اپنا استحقاق جان چکا۔ (4) تب سے اسٹیبلشمنٹ کو ایسا طاقتور بنایا کہ کئی مطلق العنان لافانی طاقت کے دعویدار بن گئے، یعنی حکومت دینے، چھیننے والے، زندگی و موت پر دسترس رکھنے والے غرضیکہ ماضی میں خدائی صفات اپنا ئے رکھیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی لا متناہی طاقت اپنے لئے بوجھ، آج اس بوجھ تلے دبنے کو ہے۔

سیاستدانوں نے 14اگست 1947ءکو وجود میں آنیوالی مملکت کو12 مارچ 1949 ءکو آئین مملکت کے رہنما اصول اور خدوحال دیئے، پارلیمان میں قراردادِ مقاصد منظور کروانے کا شاندار کارنامہ سر انجام دیا۔ لیاقت علی خان کے آخری مہینوں (1951) میں قراردادِ مقاصدایک رسمی دستاویزی شکل اختیار کرنے کو تھی۔ لیاقت علی خان کو شہید کر دیا گیا ، انکی شہادت کی سوچی سمجھی منصوبہ بندی ، ایک وجہ شاید یہ قرار داد مقاصد پر آئینی پیش رفت تھی۔ اکتوبر 1951میں خواجہ ناظم الدین کے وزیراعظم بنتے ہی اسٹیبلشمنٹ نے کھل کھیلنے کی ٹھانی۔ ڈیڑھ سال بعد ہی 1953ءمیں وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو برطرف کر دیا۔ محمد علی بوگرا کو بطور وزیر اعظم چنا، جیسے ہی بوگرا نے آئین کا ڈھانچہ (بوگرا فارمولا) دیا، جرائم پیشہ جتھہ نے رعونت سے بوگرا کو چلتا کیا، بوگرا فارمولا ساتھ ہی چلتا بنا۔ چوہدری محمد علی نے 23مارچ 1956ء کو دستور دیا تو اسکی چھٹی کرا دی۔ بالآخر ملک کو یکجا رکھنے والی دستاویز، 1956ء کا آئین بھی منسوخ کر دیا۔ منسوخی ہی نے تو قومی وحدت پر خط تنسیخ پھیر دیا۔ 16دسمبر 1971ءکا سانحہ مشرقی پاکستان 7اکتوبر 1958ء کا کفارہ تھا۔ کیسی بد قسمتی کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کیساتھ اللہ تعالیٰ نے ذلت اور ہزیمت کا اضافی بوجھ بھی ہمارا مقدر بنا دیا۔ سیاستدانوں کی مرہون منت 1973ء میں دوسرا آئین وجود میں آیا۔ بدقسمتی، آئین کو 1977ء، 1999ءمیں دن دہاڑے اور کئی دفعہ رات، اندھیرے میں بوٹوں نے روندے رکھا۔ اگرچہ 1988ء تا 2023ء جتنی حکومتیں وجود میں آئیں ، تمام مرضی اسٹیبلشمنٹ کی پھر بھی تالیفِ قلب نہ ہوئی۔ بے کیفی، بے اطمینانی نے جان نہ چھوڑی، کسی کو مدت پوری نہ کرنے دی۔ آج آئین پھر متزلزل جبکہ آئین کے نفاذ کو یقینی بنانے والی عدالتیں متاثر ہیں۔ پچھلے 35 سال میں جو سیاسی حکومتیں وجود میں آئیں ان میں کچھ تو درمیانی آئینی، کچھ کمتر آئینی تھیں اور نوبت اب ابتر آئینی تک آ پہنچی ہے۔ اس سارےعرصہ میں پارلیمان اور عدالتیں اسٹیبلشمنٹ کے سامنےسربسجود رہیں۔ پچھلی ایک دہائی کی خصوصی محنت کے بعد آج مملکت ایک دفعہ جس آئینی بحران سے دوچار ہے، تمام سیاسی جماعتیں بشمول PTI ، دونوں بڑے ادارے سب باجماعت بھی کوشش کریں تو’’رہو نوں کہو ہُن رہوے محمدؔ، ہُن رہوے تاں مناں‘‘۔

تازہ ترین