• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم ایسے دور میں رہ رہے ہیں جب بدشگونی ہماری زندگیوں پر اپنا تاریک سایہ ڈالتی رہی ہے۔ ہمیں اپنی جذبات سے بھرپور نوجوانی میں جو کچھ سکھایا گیا، ہم نے جو بھی محنت اور مشقت کی، اور ہم جسے بھی اپنی زندگی کی بنیاد خیال کرتے تھے، وہ سب کچھ ہمارے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ ہم ناقابل پیمائش خلا میں گھور رہے ہیں جس میں حقیقت وجود نہیں رکھتی۔ تکلیف دہ مداخلت ہماری زندگیوں میں جس طرح سرائیت کررہی ہے اسکا اظہار ہمارے ماہ و سال کے زیاں میں ہوتا ہے۔

اس کا تعلق صرف میری زندگی سے ہی نہیں۔ اس کا تعلق صرف آپ کی زندگی سے ہی نہیں۔ اس کا تعلق ہر اُس شخص کی زندگی سے ہے جو اس پریشان کن دور میں زندہ ہے جب آئین، قانون اور اخلاقیات کا بے رحمی سے دھڑن تختہ کر دیا گیا ہے، اور ان کی جگہ ملک کی بنیادیں ذاتی عزائم کے ڈگمگاتے ستونوں پر کھڑی کردی گئی ہیں، اور ریاست میں بے رحم لوٹ مار سکہ رائج الوقت ہے۔ ہمیں اس بندگلی میں داخل ہونے پر کس چیز نے مجبور کیا؟ ہم اس وحشت ناک ویرانے میں ہیں جہاں انصاف اور قانون کی حکمرانی کی رمق نہیں، جہاں انسانی عزت اور وقار کی قدر وقیمت مٹی میں مل گئی ہے۔

گزشتہ چند ایک ماہ میں ہم نے جو کچھ دیکھا وہ آئین اور اس سے بننے والے قوانین کی ایک منصوبہ بندی کے تحت خاتمے کی کہانی سناتا ہے۔ عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے دور میں ایک سازش کے تانے بانے بنے گئے، حکومت کو غیر مستحکم کرنےکیلئے کئی ماہ تک کوششیں ہوئیں جن کا خاتمہ عدم اعتماد کے ووٹ کی منظوری پر ہوا۔ سب کچھ ایک طے شدہ منصوبے کے مطابق تھا جس کاہدف ایک ایسے لیڈر کو گھر بھیجنا تھا جس نے کوویڈ کے خوفناک وقت میں بھی قوم کی فلاح و بہبود کو ترجیح دے کر لوگوں کا گہرا اعتماد حاصل کیا تھا۔

یہ ڈرامہ صرف انکی برطرفی پر ختم نہیں ہوا۔ تقریباً دو سو کے قریب جعلی، بے بنیاد اورمن گھڑت مقدمات درج کیے گئے، جن میں کردار کشی کے منفی ہتھکنڈوں سے لیکر جسمانی طور پر خاتمے کی کوشش بھی شامل تھی۔ عمران خان اور انکے خاندان کو زہریلے اوربدبودار پروپیگنڈے کا نشانہ بنایا گیا۔ انکی سیاسی طاقت کی بنیاد کو نشانہ بنانے اور انکے کردار پر کیچڑ اچھالنےکیلئے، انکی پارٹی کے اراکین کو ہراساں کیا گیا اور ان میں سے کچھ غائب ہو گئے۔ سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے پر وہ ان تمام جرائم سے پاک قرار پائے، جن کے اُن پر تحریک انصاف میں شمولیت کے دن سے الزامات لگائے گئے تھے۔ یہ بالکل شیکسپیئر کے المناک ڈراموں کی طرح ہے جن میں غداری اور بربریت کی دوہری لعنت کی وجہ سے اسٹیج پر لاشوں کے ڈھیر لگے تھے۔ کیا زندگی بھر ہم ان لاشوں کو اکٹھا کرتے اور ٹھکانے لگاتے رہیں گے تاکہ ان سے جڑی جرائم کی کہانیاں عوام میں نشر نہ ہونے پائیں؟

زخموں پر نمک چھڑکنے کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے، سیاسی اسٹیج پر مجرم گینگ کو واپس لایا جارہا ہے۔ بہت جلدبازی میں ایک ماتحت عدالت نے اُنھیں ملک کی اعلیٰ عدلیہ کی سنائی ہوئی سزا ختم کردی ہے۔ اخلاقی بنیادوں پر ایسے فیصلے کو ایسا سامان تجارت بنادیا گیا ہے کہ میں اس قانون کی تلاش میں ہوں جس کے تحت اس کا قانونی جواز غیر معمولی سرعت سے پیش کیا گیا ہے تاکہ سابق و زیرا عظم ایک بار پھر جلدی سے تخت نشیں ہو سکے۔ گزشتہ اٹھارہ ماہ کے دوران ہم نے اسی سفر کی منازل طے کی ہیں۔ اسکی ایک شروعات تھی، گرچہ انتہائی ناقص، لیکن وہاں سے واقعات کی تباہ کن حرکت شروع ہوئی۔ عمران خان کو ’’فوری انصاف‘‘ کی فراہمی کا بندوبست دکھائی دیتا ہے۔ انھیں لامتناہی وقت تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کرنے کے ارادے ہیں تاکہ ان کی غیر موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت آرام سے سیاست کی سمت تبدیل کر دی جائے اور ملک کو چلانے کیلئے جرم اور بدعنوانی قابل قبول افعال ہو جائیں۔ کیا ایسا ممکن ہو پائے گا؟ یا یہ کوشش پلٹ کر ان پر ہی وار کرے گی اور قومی کردار کا ڈھانچہ مزید نقصان اٹھائے گا؟ اور کس قسم کی ذہنیت اس حکمت عملی کو نافذ کرنے کیلئےکمر بستہ ہے جس نے ملک کو تباہی کے دہانے پر دھکیل دیا ہے؟ اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ اس تدبیر کو عملی جامہ پہنانے کے راستے میں لگنے والا ہر چرکا مزید زہرناک ثابت ہوا ہے۔ اسکے باوجود ارباب اختیار نے نہیں سوچا کہ وہ اپنے منصوبوں کا از سر نو جائزہ لیں اور یہ دیکھیں کہ کیا ریاست اور اس کے عوام کی تقدیر سے متعلق نازک معاملات اس سمت چلنے کے قابل ہیں یا نہیں۔ ذہن میں ایسے خیالات تبھی آئینگے جب مقصد ملک کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانا ہو۔ لیکن اگر مقصد ظلم و جبر کے ذریعے حکمرانی کو مزید دوام بخشنا ہے تو ایسے خیالات ہمیشہ کیلئے اجنبی ہی رہیں گے۔ یہ موجودہ حالات کا زیادہ ٹھوس اظہار معلوم ہوتا ہے جیسا کہ مایوسی کے احساس سے ظاہر ہوتا ہے جو دھیرے دھیرے ایک ذہنیت تشکیل دے رہا ہے۔ یہ ریاست کی تمام عمارت منہدم کر سکتا ہے۔ خیبرپختونخوا کے عوام نے خان کی حمایت میں بڑی تعداد میں نکل کر حکمرانوں کے طرز عمل پر اپنے بے لگام غصے کا اظہار کیا ہے۔ پی ٹی آئی اپنی سیاسی سرگرمیوں کو بڑھا گئی تو باقی حصوں میں جلد ہی صورتحال یکسر تبدیل ہو سکتی ہے۔

وقت کے چکر پر کوئی قابو نہیں پا سکا۔ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کی تشکیل میں وقت لگتا ہے لیکن عوام کی حکمرانی ایک حقیقت ہے جسے وقوع پذیر ہونے سے روکا نہیں جا سکتا۔ فیض نے اسے اپنے مخصوص انقلابی جوش کے ساتھ بیان کیا ہے:’’وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے، جو لوح ازل میں لکھا ہے /جب ظلم و ستم کے کوہ گراں، روئی کی طرح اُڑ جائیں گے / ہم محکوموں کے پائوں تلے یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی /اور اہل حکم کے سر اُوپر جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی۔‘‘

اس وقت جو نسخہ استعمال کیا جا رہا ہے، اس سے صرف مرض میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حقیقی علاج آزمانے میں کسی کو دلچسپی نہیں۔ درحقیقت ہر ناکامی سے اشتعال بڑھ رہا ہے۔ اسکااظہار فوجی عدالتوں پر آنیوالے فیصلے سے ہوتا ہے۔ یہ صورتحال ایک ایسی ریاست کا احوال سناتی ہے جہاں معقولیت جنس نایاب بن کر رہ گئی ہے۔ اس سے بیماری کا علاج نہیں ہو گا۔ ضرورت ہے کہ نفرت کے جذبات کا خاتمہ ہو اور ریاست کی قسمت بنانے کیلئےمنطق اور معقولیت کا دامن تھاما جائے۔ (صاحب تحریر پاکستان تحریک انصاف کے سیکریٹری انفارمیشن ہیں)

تازہ ترین