بیماری ایک طرح سے رحمت ہے، اس سے گناہوں کی تلافی ہوتی ہے اور درجات بلند ہوتے ہیں۔ متعدد احادیث ِمبارکہ کےمفاہیم ہیں کہ اللہ تعالیٰ بعض بندوں کیلئے آخرت میں ایک بلند مقام کا فیصلہ کرتا ہے، مگر ان کے پاس وہ اعمال نہیں ہوتے جن کی وجہ سے وہ اس کے مستحق ہو سکیں، اس لیے بسا اوقات بیماریوں اور آزمائشوں میں مبتلا کر کے انہیں اس قابل بنایا جاتا ہے کہ وہ آخرت کے اس بلند مقام کے اہل ہوسکیں۔ پریشانیاں اور بیماریاں ہمارے لیے بلندیٔ درجات کاذریعہ ہیں، بشرطیکہ ہم صبر و ہمت سے کام لیں، ثواب کی امید رکھیں اور خدائی فیصلے اور تقدیر پر راضی رہیں۔ حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:دنیا میں عافیت سے رہنے والے قیامت میں جب آزمائش والوں کو دیکھیں گےکہ ان کو خوب اجر و ثواب دیا جا رہا ہے، تو وہ لوگ یہ تمنا کریں گے کہ کاش! دنیا میں ان کے جسموں کو قینچیوں سے کاٹ دیا جاتا اور ان کو بھی اسی طرح اجر و ثواب دیا جاتا، جیسے ان آزمائش والوں کو دیا جا رہا ہے۔
آٹھ سال تک سپائنل کارڈ انجری (حرام مغز کی چوٹ) سے لڑتے ہوئے، ہر دن دکھ و تکلیف برداشت کرتے ہوئے والد گرامی 4 دسمبر کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ آٹھ سال پہلے ایک کار حادثہ ہماری زندگی کا رخ ہی بدل گیا۔ اس حادثے کے بعد والد صاحب دوبارہ اپنے پیروں پر نہ چل سکے لیکن ان کی ہمت، حوصلے، جذبے اور صبر نے ان کو زندہ رکھا اور وہ بیڈ پر لیٹے ہوئے بھی گھر کے نظام کو چلاتے رہتے۔ کہتے ہیں کہ انسان کے نام کا اس کی شخصیت پر گہرا اثر ہوتا ہے‘ نجانے یہ بات کس حد تک درست ہے مگر والد مرحوم محمد شریف واقعتاً ایک شریف النفس انسان تھے۔ ان کی شرافت کی گواہی ان کے تمام دوست احباب، عزیز و اقارب اور پورا آبائی شہر پتوکی بھی دیتا ہے۔ والد گرامی پتوکی میں پراپرٹی کا کام کرتے تھے اور اس کام میں بھی ایمانداری اور دیانت داری سے انہوں نے اپنی پہچان بنائی۔ کبھی کسی کے ساتھ غلط بیانی نہیں کی۔ نہ کبھی حرص و لالچ کا شکار ہوئے اور نہ ہی دولت کی طمع کی۔ اللہ نے جو بھی رزق دیا اس پر صبر و شکر کیا۔ وہ ایک سیلف میڈ آدمی تھے۔ وہ خود بھی گریجوایٹ تھے اور اکثر ہمیں بھی کہا کرتے تھے کہ تعلیم انسان کو شعور دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری تعلیم کیلئے والد صاحب نے دن رات ایک کر دیا۔ پتوکی کے سب سے اچھے‘ مسلم ماڈل سکول میں ہمیں داخل کرایا۔ اسکے بعد لاہور میں اچھے کالجز اور یونیورسٹیوں میں سب بچوں کو تعلیم دلائی۔ الحمدللہ ہم پانچ بھائی ہیں؛۔ عثمان چونکہ کم عمری میں والد کے کام کے ساتھ وابستہ ہو گئے اس لیے لاہور پڑھنے نہ جا سکے مگر باقی سب کو انہوں نے لاہور پڑھنے کیلئے بھیجا اور یہاں بھی ہمیں ہاسٹل میں رکھنے کے بجائے ایک گھر لے کر دیا اور محبت کی انتہا یہ تھی کہ ہم سب کیلئے وہ پتوکی سے کھانا بنوا کر لاتے تھے۔ وقاص اور عمر بھائی یو ایم ٹی میں پڑھتے تھے‘ نعمان نے گورنمنٹ کالج اور میں نے ایف سی کالج سے انٹرمیڈیٹ کیا، اس کے بعد میں اور نعمان پنجاب یونیورسٹی چلے گئے اور والد صاحب بخوشی ہماری فیسوں کا بار اٹھاتے رہے۔ میری والدہ نے بھی جس طرح آخری دم تک والد صاحب کا ساتھ دیا‘ وفا کی انتہا کر دی۔ میرے والد ہمارے گھر ہی نہیں بلکہ اپنے سسرال یعنی والدہ کے بہن بھائیوں کے بھی سربراہ تھے۔ میرے ماموں اور خالو وغیرہ‘ سب انہی سے مشورہ لیتے تھے۔ جب بھی والدین پتوکی سے ہمیں ملنے لاہور آتے تو نہ صرف شاپنگ کرواتے بلکہ یہ بھی سمجھاتے کہ ہمیشہ اچھا لباس پہننا چاہیے۔ وہ ایک خدا ترس اور رحم دل انسان تھے اور لوگوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔ ان کے بس میں جو ہوتا تھا‘ جتنا وہ دوسروں کیلئے کر سکتے تھے‘ اس سے کہیں زیادہ کرنے کی کوشش کرتے تھے۔قریب آٹھ سال پہلے والد اور والدہ گاڑی پر لاہور آ رہے تھے کہ ان کی کار کو حادثہ پیش آ گیا۔ اس حادثے میں والد صاحب کو سپائنل کارڈ انجری ہو گئی اور وہ چلنے پھرنے سے قاصر ہو گئے۔ ان کے دو آپریشن ہوئے، دنیا کے ہر اچھے ڈاکٹر سے مشورہ لیا کہ وہ کسی طرح صحت یاب ہو جائیں مگر خدا کو شاید ہماری آزمائش منظور تھی۔ ہم سب خاندان والے اور والد صاحب آٹھ سال اس آزمائش میں رہے ۔ سب سے بڑھ کر میرےبھائی عثمان اور والدہ‘ جو والد صاحب کے پاس ہی رہتے تھے‘ نے انکی بہت خدمت کی۔ عثمان بھائی نے دن رات والد صاحب کو سنبھالا۔ ان کا کھانا‘ پینا‘ ایکسر سائز‘ فزیو تھراپی‘ یہ سب کچھ عثمان نے اپنے ذمے لے رکھا تھا۔ کے جنازے اور تدفین کے موقع پر ان کے جتنے دوست احباب ملے‘ سب نے ان کے بارے میں اچھے کلمات کہے، ان شاء اللہ یہ گواہی اگلے جہان میں نجات کا وسیلہ سبب بنے گی۔ نمازِ جنازہ پر علامہ ضیا اللہ شاہ بخاری نے یہ حدیث شریف سنائی کہ فوت ہونے والے شخص کے بارے میں اگر دو لوگ بھی یہ کہہ دیں کہ یہ شخص بہت اچھا تھا تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت واجب کر دیتا ہے۔ الحمدللہ! والد صاحب کے بارے میں ان کے سب دوستوں اور تمام اہلِ علاقہ و شہر نے خیر کے کلمات کا اظہار کیا۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا والد صاحب پر فضل و کرم ہے۔ والد صاحب کی رحلت پر لاتعداد دوست احباب نے تعزیت کی‘ میں سب دوستوں کا شکر گزار ہوں اور سب سے دعائوں کا خواستگار ہوں کہ وہ میرے والد محمد شریف کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہیں۔ برادر اویس حفیظ کا تعزیتی پیغام یہاں شیئر کرنا چاہتا ہوں:’’آپ کے والد محترم کے سانحہ ارتحال بارے علم ہوا، یقیناً یہ آپکے اور آپکے اہل و عیال کیلئے ایک دکھ اور صدمے کی گھڑی ہے، ہم یہ عقیدہ تو رکھتے ہیں مگر شاید ہمارے وجود کا ایک حصہ مسلسل اس کا انکار کر رہا ہوتا ہے کہ بقا صرف خدائے ذوالجلال کی ذات بابرکات کو ہے، دنیا کی باقی ہر شے کو یقیناً فنا ہونا ہے،ہم دنیا کے جھمیلوں میں کھو کر موت ایسی ابدی حقیقت کو جھٹلاتے رہتے ہیں مگر فرمایا گیا کہ مومن موت کو برا سمجھتا حالانکہ یہ اس کے حق میں بہتر ہے۔ موت یقیناً آزمائش اور فتنوں سے محفوظ کرتی ہے اور بندہ مومن کیلئے رحمت ثابت ہوتی ہے۔ یقیناً سعید ہیں وہ روحیں جو کارِ خیر کا زادِ راہ لے کر جائیں اور اپنے پیچھے اعلیٰ اور نیک میراث چھوڑ کر جائیں۔ نیک اولاد سے بہتر ترکہ کوئی نہیں اور اولاد کی دعائیں یقیناً مرحوم والدین کے کام آتی ہیں‘ ان کی مغفرت و بخشش کا سبب اور ان کے درجات کی بلندی کا ذریعہ بنتی ہیں۔ اب اپنے والد مرحوم کیلئے آپ کا سب سے بہتر عمل یہی ہے کہ ان کیلئے زیادہ سے زیادہ دعا کریں۔ ہم بھی دعاگو ہیں کہ اللہ کریم ان سے کرم کا معاملہ فرمائے، ان کی تمام خطائیں اور تقصیریں معاف فرما کر ان کی بخشش فرمائے اور ان کی اگلی منزلیں آسان فرمائے، آمین‘‘۔
آخر میں پیر سید نصیر الدین نصیر کی لازوال غزل کے چند اشعار‘ جو دلی کیفیت کی بھرپور ترجمانی کرتے ہیں:
سنے کون قصہ دردِ دل میرا غمگسار چلا گیا
جسے آشناؤں کا پاس تھا‘ وہ وفا شعار چلا گیا
وہی بزم ہے وہی دھوم ہے‘ وہی عاشقوں کا ہجوم ہے
ہے کمی تو بس میرے چاند کی‘ جو تہِ مزار چلا گیا