• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پروفیسر خالد اقبال جیلانی

برصغیر کی تاریخ میں ہمیں دو طرح کی شخصیات دودھاروں کی صورت نظر آتی ہیں، بادشاہوں اور راجا مہاراجوں کی قوت و جلالت کے پہلو بہ پہلو صوفیائے کرام کی روحانیت و جمالیت بھی برابر جاری و ساری رہی ہے، ان فرش نشین فقیروں نے انسان دوستی میں اہلِ اقتدار کے مقابلے میں زیادہ اثر پذیرانہ خدمات انجام دی ہیں، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ 1192ء میں ایک ہی وقت میں ایک ہی جگہ جہاں ایک طرف شہاب الدین غوری نے اپنی عسکری قوت کے بل پر خود کو سلطان الہند کہلوایا، تو دوسری طرف ٹھیک اسی وقت خواجہ معین الدین چشتیؒ کو لوگوں نے ان کی روحانی جمالیت و محبوبیت کی وجہ سے سلطان الہند کہہ کر پکارا۔

یوں تو دنیا میں ہر جگہ ہی صوفیا ئےکرام نے محبت و خدمت سے ٹھکرائے ہوئے کمزور اور مظلوم انسانوں کو اپنا گرویدہ بنایا، صوفیائے کرام کا یہ سماجی اور معاشرتی کردار ہمیں برصغیر میں بہت نمایاں نظر آتا ہے، یہی وجہ ہے کہ تصوف جتنا اس علاقے میں پھلا پھولا اور جتنی زیادہ اسے ہند کی سرزمین راس آئی ،کسی اور خطّے پر ایسا نہیں ہوا، سرزمینِ ہند کے صوفیائے کرام کا کردار اس خطّے میں بسنے والے ہندو، مسلمان، سب کے ساتھ پیار و محبت پر مبنی تھا۔ صوفیائے کرام کی سماجی خدمات اور معاشرتی کردارکا ذکر تاریخی کتب میں جا بہ جا ملتا ہے۔ 

انھوں نے اس سرزمین پر آباد لوگوں کے ساتھ خلوص و محبت کا برتائو کیا، اپنے حسن اخلاق اور محبت سے سرزمین ہند کے ٹھکرائے ہوئے انسانوں کو سینے سے لگایا، صدیوں سے ظلم و ستم کے شکار شودروں اور مفلس و قلاش جذام زدہ انسانوں کو اپنے دستر خوان پر بٹھایا، غریب غرباء کو امراء اور روساء کے ساتھ اپنی مجلسوں میں یکساں عزت بخشی۔ 

حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کی تاریخ بلاامتیازِ مذہب و بغیر تفریقِ رنگ و نسل ان ہی نفوس قدسیہ کے پاکیزہ حالات زندگی کے مطالعے سے عبارت ہے، جو اپنی اخلاقی قدروں کے چمن آباد کرتے آئے ہیں، جو اس زمین پر انسانیت کو زندہ رکھنے کی کوشش کرتے، جو انسان اور خدا کے رشتے کو جوڑنے میں اہم کردار ادا کیا اور اللہ اور بندے کے تعلق کو مضبوط کرتے رہے، جن سے مل کر زندگی کا ڈھب بدل جاتا، دنیا کی بے حقیقتی کم مائیگی ظاہر ہو جاتی، غرض یہ کہ یہ وہ اوصافِ حمیدہ تھے، جنھیں فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

تصوف کیا ہے؟ تصوف اپنی حقیقت اور روح کے اعتبار سے سراسر عشق ہی عشق ہے، تصوف اور عشق ہم معنی الفاظ ہیں، تصوف خدا سے ملنے اس کی ذات کا عرفان حاصل کرنے، اس کی ذات کا قرب حاصل کرنے کی شدید آرزو کا نام ہے۔ تصوف روحِ انسانی کا اپنی اصل سے وصل حاصل ہوجانے کا اشتیاق اور خدائے حی و قیوم ، واحد و یکتا لاشریک سے تعلق پیدا کرنے کا نام ہے۔

ارکانِ اسلام، شعائر، مناسک، رسوم ، قواعد ظاہری یعنی احکامِ شریعت یہ سب اس رابطے اور تعلق کے حصول کا ذریعہ ہیں، یہ مقصود بالذات نہیں، بلکہ مقصد کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہے، تصوف نہ صرف ہر قدم بلکہ ہر نفس پر بندے کو اللہ کی وحدانیت سے روشناس کرواتا ہے، تصوف اس شوق ملاقات اور حسرت و صل کی شدّت کا نام ہے، جو عشقِ حقیقی سے قرب حاصل کرنے کے لیے صوفی کے دل و دماغ پر چھاجاتا ہے اور اس کی عقلی و جذباتی زندگی پر غالب آجاتا ہے۔

تصوف ایک عالم گیر حلقہ ہے، جہاں تزکیۂ نفس اور تصفیہ قلب کا اہتمام کیا جاتا ہے، یہاں سے وابستہ ہر فرد، ہر نفس، اپنا احتساب کرتا ہے، یہاں عمل نہیں خیال پر گرفت ہوتی ہے۔ یہاں ہر سالک کو یہ سبق پڑھایا جاتا ہے کہ دنیا میں رہو، مگر اس سے دل مت لگاؤ، اللہ کے سوا سب سے ترک تعلق بہترین طرزِ حیات ہے، شہوت، غصّہ، حرص و طمع انسان کے حقیقی دشمن ہیں، جو اس کے اندر بسے ہوئے ہیں، سالک جب تک ان پانچ دشمنوں (نفسِ امارہ) کو مغلوب نہیں کرے گا، اسے خدا کی ذات میں فنائیت اور اس کی ذات کا عرفان حاصل نہیں ہوسکتا، جسے ذاتِ باری کی قربت اور فنائیت حاصل ہوجاتی ہے، پھر اسے ہر شے میں اسی کا جلوہ دکھائی دیتا ہے، توحید یہی ہے کہ دوسرے کا خیال دل سے نکل جائے، اللہ کا قرب اور دیدار انہی کو حاصل ہوتا جو اسے پانے کے لیے سراپا جستجو اور مجسم انتظار رہتے ہیں، ضبطِ نفس، ایثار، شفقت، ذکر، مجاہدہ، مراقبہ اسے پانے اور قرب کی شرائط ہیں، جنہیں پورا کرکے سالک کو اللہ کا عرفان حاصل ہوتا ہے اور وہ فنافی اللہ کا مقام پاتا ہے۔

صوفیائے ہندوستان کے اسی قافلے کے ایک روشن چراغ حضرت خواجہ حافظ غلام حیدر شاہ المعروف میاں حضور نقشبندی گلشن آبادی ؒ کی ذات والا صفات بھی ہے۔ جن کا 57واں عرس 24-23-22-21 دسمبر کوپاکستان و ہندوستان میں عقیدت و احترام سے منایا جا رہا ہے۔

میاں حضورؒ بھارت کی موجودہ ریاست مدھیہ پردیش سابقہ مالوہ سنٹرل انڈیا کے ایک شہر جاؤرہ(گلشن آباد) میں1849 ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کی ابتدائی زندگی بڑے شاہانہ انداز سے گزری۔ آپ ایک دولت مند باپ کے بیٹے تھے ،لہٰذا آپ کی تعلیم و تربیت بھی اسی انداز سے ہوئی، آپ نے جاؤرہ کے ہائی اسکول میں شہر کے نامور اور قابل ترین اساتذہ سے قدیم و جدید علوم کی تعلیم حاصل کی۔ آپ کی علمی قابلیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کو اردو، فارسی، عربی، ہندی، سنسکرت اور انگریزی زبانوں پر مکمل عبور حاصل تھا۔ فارسی اور اردو کے قادر الکلام شاعر تھے۔ مائل ؔگلشن آبادی تخلص کرتے تھے۔

فضل ایزدی جب رہبرِ راہ سلوک ہوا اور میاں حضور ؒ نے سلسلۂ نقشبندیہ میں حضرت خواجہ فضل الدین احمد نقشبندیؒ کی بیعت کی اور سلوک و تصوف کا راستہ اختیار کیا تو آپ کے شاہانہ لباس، غذا، رہن سہن، عادات و اشغال ذہن و افکار کی دنیا میں انقلاب آگیا اور ’’الفقر فخری‘‘ کا عملی نمونہ اور زندہ تقسیر بن گئے۔ آپ نے اپنی ساری دنیا فقیری میں لٹا دی۔ 

ایک مرتبہ ارشاد فرمایا ’’اللہ نے دنیا بہت دی تھی، ذاتی مال و متاع کے علاوہ جب میرے والد صاحب کا وصال ہوا تو ہزاروں روپیہ نقد، زیورات ، زمینیں، مال و مویشی متعدد جائیدادیں بہت کچھ تر کے میں ملا ۔اللہ کا لاکھ لاکھ شکر اور احسان ہے کہ آج میرے پاس ایک تنکا بھی نہیں اور آج میں اس دنیا میں ایک انچ زمین کا بھی مالک نہیں ہوں۔

یہی کچھ ہے ساقی متاعِ فقیر

اسی سے فقیری میں ہوں میں امیر

سلوک کے میدانِ خارزار میں قدم رکھتے ہی آپ نے سب سے پہلے تصوف کے جو بنیادی اصول سختی سے اپنائے ، وہ کم کھانا، کم سونا، کم بولنا اور کم ملنا تھے۔ بمشکل دو یا تین گھنٹے سوتے، آپ ہر وقت مسجد میں رہتے ،مسجد ہی آپ کا گھر بھی تھی اور عبادت گاہ بھی ، ہر وقت یاد الہٰی میں مشغول رہتے، زندگی میں شریعت کے خلاف کبھی کوئی قدم نہیں اٹھاتے۔ عشق رسول ﷺ آپ کا سرمایۂ حیات اور اتباع سنت آپ کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ 

آپ کی شریعت کی سختی سے پابندی اتباع سنت اور عشق رسول ﷺ کو دیکھ کر آپ کے ہم عصر صوفیاء اور مشائخ کہا کرتے تھے کہ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں میاں حضور ؒ کی شکل میں اس زمانے میں اسلاف کا عملی نمونہ دکھادیا۔ آپ بہت کثرت سے درود شریف کا ورد کیا کرتے تھے۔ درود آپ کی روحانی غذا تھی۔ قرآن کریم آپ کی محبوب ترین کتاب تھی۔ قرآن سے شغف کا اندازہ اس بات سے کیجئے کہ آپ نے چالیس سال کی عمر میں صرف چند مہینوں میں قرآن پاک حفظ کر لیا۔

آپ نے کبھی کسی کشف کرامت کا اظہار نہیں فرمایا۔ آپ کرامت کو فقیر کے راستے کی رکاوٹ قرار دیتے اور اپنے مریدین و معتقدین کو سختی سے منع کرتے کہ میرے کسی عمل کو کبھی بھی کرامت بنا کر لوگوں کے سامنے بیان نہ کیا جائے ۔آپ جس بات کے لئے سب سے زیادہ بے چین و بے قرار رہتے۔ وہ مخلوق کی خدمت، خبرگیری اور ان کی ضروریات زندگی کی فراہمی تھا ۔چناںچہ آپ کے پاس جو کچھ بھی مال و متاع نذرانے وغیرہ کی شکل میں آتا، وہ اسی وقت ضرورت مندوں میں تقسیم فرمادیتے۔

کوئی چیز کسی صورت اپنے گھر میں نہیں جانے دیتے اور نہ ہی اس میں اپنے لئے یا اپنے گھر والوں کے لئے کوئی چیز رکھتے ،حالانکہ گھر میں اکثر فاقہ ہی رہتا تھا، عاجزی و انکساری آپ کے خُلق کا اعلیٰ ترین و صف تھا۔ اپنے آپ کو بہت کمتر سمجھتے تھے ،اکثر گفتگو میں فرماتے ’’بھائی، میں فقیر آدمی ہوں۔‘‘ ہر چھوٹے بڑے کی عزت اس کے حیثیت و مقام سے بڑھ کر کرتے۔ انسان سے بلاتفریق مذہب و ملت محبت کرتے۔ 

اگر کوئی شخصیت قیدِ حیاتِ ظاہری سے آزاد ہو کر نظروں سے اوجھل ہو چکی ہو تو اس کی ذات کی بلندی وپستی کا اندازہ اپنے بعد چھوڑی ہوئی اُس کی تعلیمات و نظریات کے آئینے ہی میں کیا جا سکتا ہے۔ آئیے چند سطور میں آپ کی تعلیمات سے آپ کی ذات کا عرفان اور ہدایت حاصل کریں۔ فرمایا، ’’ جس کو انسان کہتے ہیں، وہ صرف شریعتِ محمدیﷺ کے سانچے میں ڈھل کر نکلتا ہے، آدمی چاہے ہوا میں اڑے یا پانی پر چلے شریعت کے بغیر نجات ممکن نہیں ‘‘ فرمایا’’ صحیح طریقت (تصوف) وہی ہے،جو شریعت کے تابع ہو ،ہم طریقت کو اختیار ہی اس لئے کرتے ہیں کہ شریعت پر ایمان کامل ہو جائے جو طریقت شریعت سے آزاد ہو، رسول اللہ ﷺ کی طریقت نہیں کسی اور کی ہو تو ہو‘‘۔

میاں حضورؒ کا وصال 9؍جمادی الثانی 1388ھ مطابق 15؍ستمبر1967ء کو جاؤرہ (بھارت) میں ہوا۔ آپ کو اُسی مقام پر دفن کیا گیا، جہاں آپ قیام فرمارہے ، جاؤرہ میں آپ کا مزار اور خانقاہ آج بھی انسانیت کے لئے رشد و ہدایت کے فیضان کا ذریعہ ہیں۔ پاکستان و بھارت میں آپ کے مریدین اور معتقدین ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔