• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: مسمّٰی شیر محمد چچہ پٹھان کی زندگی میں اُن کا بیٹا سردار خان فوت ہوگیا، شیر محمد نے اپنے پوتے نذر حسین ولد سردار خان کو اپنی جائیداد سے 75کنال چھ مرلے رقبہ تملیک کردیا کہ میرا پوتا محروم نہ رہ جائے۔ رقبہ کا قبضہ دے کر شیر محمد نے ایک تحریر لکھی کہ میرے مرنے کے بعد میری بقیہ جائیداد میں نذر حسین ولد سردار حسین وارث نہیں ہوگا ،بلکہ میرے دیگر ورثاء وارث ہوں گے۔

شیر محمد کے دو بیٹے احمد یار اور غلام اکبر اور ایک بیٹی حیات ہے ، جبکہ شیر محمد کی زندگی میں ایک بیٹا سردار خان اور چار بیٹیاں فوت ہوگئی تھیں۔ اب نذرحسین نے 75کنال 6مرلے موہوبہ زمین کے علاوہ عائلی قوانین کے تحت شیر محمد کی بقیہ جائیداد سے بھی حصہ لے لیا ہے، اس حوالے سے شرعی حکم کیا ہے ، کیا نذر حسین اضافی لی گئی جائیداد ورثاء کو واپس کرے یا اپنے پاس رکھے ؟(حافظ محمد زبیر ، تونسہ شریف )

جواب: کسی شخص کے انتقال کے بعد اُس کے جو ورثاء حیات ہیں ، ترکہ اُن کے درمیان قرآن کریم کے بیان کیے ہوئے احکام ِ وراثت کے مطابق تقسیم ہوتا ہے۔اگر کسی شخص کے صاحبِ اولاد بیٹے کا اس کی زندگی میں انتقال ہوچکاہے اور اس کی دیگر اولاد (بیٹے اور بیٹیاں) موجود ہیں، تو اُس شخص کی وفات کے بعد اس فوت شدہ بیٹے کی اولاد (پوتے پوتیوں) کو اس کے ترکے سے کچھ نہیں ملے گا ،کیونکہ تقسیمِ وراثت کا ایک مُسلّمہ اصول ہے : ’’ قریب کا وارث دور کے وارث کو محروم کردیتاہے ‘‘، اسے ’’اصولِ حجب‘‘ کہتے ہیں۔

امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی ’’صحیح البخاری‘‘ میں ایک تعلیق ذکر فرماتے ہیں: ترجمہ:’’حضرت زید بن ثابت ؓ نے فرمایا: بیٹوں کی اولاد ، اولاد کے درجے میں ہے جبکہ اُن کے ساتھ مذکر اولادنہ ہو ، پوتوں کے مذکر بیٹوں کے مذکر کی مثل ہیں اور پوتوں کی مؤنثات بیٹوں کی مؤنثات کی طرح ہیں ،پوتے اس طرح وارث ہوں گے جیسے بیٹے وارث ہوتے ہیں اور پوتے اس طرح حاجب ہوں گے ،جیسے بیٹے حاجب ہوتے ہیں اورپوتا بیٹے کے ساتھ وارث نہیں ہوگا ،(صحیح بخاری ، بَابُ:مِیْرَاثِ ابنِ الاِبْنِ اِذَالَمْ یَکُنْ ابْنٌ )‘‘۔

تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے : ترجمہ:’’ ہر وہ شخص جسے میت سے کسی شخص کے ذریعے سے تعلق ہو ، وہ اس درمیانی شخص کی موجودگی میں وراثت سے محروم رہے گا ،جیسے: پوتا ،بیٹے کی موجودگی میں وارث نہیں بنے گا ،(جلد10،ص:435)‘‘۔

شیر محمد نے اپنی زندگی میں اپنے پوتے نذرحسین ، جن کے والد کا انتقال ہوچکا تھا ،کو75کنال 6مرلے اراضی ہبہ کی اورقبضہ بھی دےدیا ،پس یہ ہبہ مکمل ہوگیا ،یہ شیر محمد مرحوم کا ایک قابلِ تحسین عمل تھا اور جن حضرات کا کوئی صاحب اولاد بیٹا اُن کی زندگی میں فوت ہوجائے ، اُنھیں ایساہی کرنا چاہیے تاکہ فوت شدہ بیٹے یا بیٹی کی اولاد بالکل محروم نہ رہے کیونکہ اپنے چچاؤں کی موجودگی میں وہ اسلامی قانونِ وراثت کے ’’اصولِ حجب ‘‘ کے تحت اپنے دادا کے وارث نہیں بن سکتے تھے، اس لیے محروم رہ جاتے۔ سو وفات یافتہ شخص کے بیٹوں کے ہوتے ہوئے پوتا پوتی وارث نہیں بن سکتے، عائلی قوانین کا یہ حصہ خلافِ شرع ہے ، پس نذرحسین نے جو زمین بطور وراثت لی ہے، اگر وہ اس سے دست بردار ہوجائیں،تو اچھی بات ہے ،اُن کی خداترسی کی دلیل ہوگی ، ورنہ ملکی قانون ،اگرچہ خلافِ شرع ہے ،لیکن ان کی پشت پر ہے ۔(واللہ اعلم بالصواب)