• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قرآنِ کریم میں ذکر: اللہ تعالیٰ نے حضرت شعیب علیہ السلام اور اُن کی قوم کا تذکرہ قرآنِ کریم کی پانچ سورتوں میں بیان فرمایا ہے۔ 1۔ سورۃ الاعراف، 2۔ سورئہ ہُود اور سورۃ الشعراء میں تفصیلی بیان ہے، جب کہ سورئہ حُر اور سورۂ عنکبوت میں قدرے مختصر۔ قومِ شعیب علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ناپ تول میں کمی کی بِنا پر عذاب میں مبتلا فرمایا، جو شدید زلزلے، چنگھاڑ اور آگ کی برسات کی صُورت تھا۔ اہلِ مدیَن کو قومِ شعیب کہا جاتا ہے۔ مدیَن ایک قبیلے کا نام ہے اور اسی نام پر ایک بستی مشہور ہوئی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ایک صاحب زادے کا نام مدیَن تھا، جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تیسری اہلیہ قطورا کے بطن سے پیدا ہوئے۔ اسی نسبت سے سیّدنا ابراہیم علیہ السلام کا خاندان ’’بنی قطورا‘‘ کہلاتا ہے۔ 

مدیَن بن ابراہیم اپنے اہل و عیال کے ساتھ اپنے سوتیلے بھائی، حضرت اسماعیل علیہ السلام کے پہلو ہی میں حجاز مقدّس میں آباد ہوگئے تھے۔ یہ خاندان آگے چل کر ایک بڑے قبیلے میں تبدیل ہوگیا۔ یوں ایک بڑی بستی وجود میں آئی، جو مدیَن کے نام سے مشہور ہوئی۔ اہلِ مدیَن خالص عرب قوم تھی۔ شہرِمدیَن شام کے اطراف میں سرزمینِ ’’معان‘‘ کے قریب واقع ہے۔ علّامہ عبدالوہاب النجار المصری تحریر فرماتے ہیں کہ ’’یہ حجاز میں شام سے متصل ایسی جگہ آباد تھی، جس کا عرض البلد افریقا کے جنوبی صحرا کے علاقے ’’قفط‘‘ کے عرض البلد کے عین مطابق ہے۔ (قصص الانبیا، علامہ عبدالوہاب النجار المصریؒ ، صفحہ 249)۔

قوم ِشعیب کی بداعمالیاں: یہ لوگ بڑے آسودہ حال، صاحبِ ثروت اور بلند اقبال تھے۔ پیشہ تجارت تھا، مگر افسوس کہ غیر اللہ کی پرستش اور ناپ تول میں کمی کرتے۔ دنیا میں سب سے پہلے ناپ تول میں کمی ان ہی لوگوں نے متعارف کروائی۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کی قوم میں سے ایک نیک بندے، حضرت شعیب ؑ کو اُن پر مبعوث فرمایا۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے انہیں اس فعلِ قبیح سے روکا اور ربّ کی گرفت سے ڈرایا۔ آپ انہیں مسلسل وعظ و نصیحت کرتے رہے۔ پروردگارِعالم نے حضرت شعیب علیہ السلام کو بہترین خطیبانہ صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ 

اُن کی پُراثر تقاریر، پختہ دلائل اور ایمان افروز وعظ و نصیحت کی بنا پر مفسّرین نے انہیں ’’خطیب الانبیاء‘‘ کے نام سے نوازا۔ اپنی اعلیٰ خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے باوجود قومِ شعیب ؑ پر کوئی اثر نہ ہوتا، بلکہ دن بہ دن اُن کی بداعمالیوں میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ یہ قوم نہ صرف کُفر و شرک میں مبتلا ہوکر حقوق اللہ کی خلاف ورزی کے مرتکب ہورہی تھی، بلکہ ناپ تول میں کمی کرکے حقوق العباد بھی پامال کررہی تھی۔ 

غریبوں سے بھتّا وصول کرنا اور زبردستی ٹیکس لینا بھی پہلی بار قومِ شعیبؑ ہی نے متعارف کروایا۔ یہ لوگ راستوں میں گھات لگاکر بیٹھ جاتے اور ہر آنے جانے والے سے بھتّا وصول کرتے۔ (قصص علّامہ عبدالوہاب النجار المصری، صفحہ 249)۔ قرآنِ کریم نے اُن میں موجود تین طرح کے عیوب بیان کیے ہیں۔ 1۔ کُفر و شرک میں مبتلا تھے، درختوں کی پُوجا کرتے تھے۔ 2۔ بیوپار میں بے ایمانی، ناپ تول میں کمی کرتے تھے۔ 3۔ راستوں میں بیٹھ کر لُوٹ مار کرتے، لوگوں کے اموال چِھینتے اور غنڈہ ٹیکس وصول کرتے۔

توحید کی دعوت اور کفار کی دھمکیاں: قومِ شعیبؑ نے حضرت شعیب علیہ اسلام کو جُھٹلانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا، چناں چہ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے، ترجمہ:’’اے شعیبؑ، تیری بہت سی باتیں تو ہمیں سمجھ ہی نہیں آئیں۔‘‘ (سورئہ ہود،آیت91) حضرت شعیب علیہ السلام کی بینائی کم زور تھی، جسمانی اعتبار سے بھی کم زور و لاغر تھے، لہٰذا یہ سب اُن کا مذاق اُڑاتے اور کہتے، ترجمہ:’’(اے شعیب ؑ) تو ہمارے درمیان ایک بے زور آدمی ہے۔ (سورئہ ہود،آیت91) دراصل یہ ان کا گمان تھا کہ بات کا سچّا وہی ہوتا ہے، جو قوی و طاقت وَر ہو۔ یہ اُن کی صریح گم راہی تھی۔

پھر آپ ؑ کو دھمکی دیتے ہوئے کہتے، ترجمہ:’’اے شعیبؑ! اگر تیرے قبیلے کا خیال نہ ہوتا، تو ہم تجھے کبھی کا سنگ سار کرچکے ہوتے۔ تیرا بل بوتا تو اتنا نہیں ہے کہ ہم پر بھاری ہو۔‘‘ (ہود، 91) قوم کی ان سخت ترین دھمکیوں کے باوجود حضرت شعیب علیہ السلام اپنی قوم کو وعظ و نصیحت فرماتے رہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے، ترجمہ:’’اے میری قوم تم اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا کوئی تمہار معبود نہیں، تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے واضح دلیل آچکی ہے۔ 

پس، تم ناپ تول پورا کیا کرو۔ فساد مت پھیلائو اور تم سڑک پر اس غرض سے نہ بیٹھا کرو کہ اللہ پر ایمان لانے والے کو دھمکیاں دو اور انہیں اللہ کی راہ میں روکو۔ تم کم تھے، اللہ نے تمہیں زیادہ کردیا اور دیکھو، (تم سے پہلے) کیسا انجام ہوا فساد کرنے والوں کا۔‘‘ (سورۃ الاعراف، آیات 86,85) حضرت شعیب علیہ السلام کی اس نصیحت اور تنبیہہ کے جواب میں قوم کے متکبّر سرداروں نے کہا، ترجمہ:’’اے شعیبؑ! ہم تمہیں اور تمہارے ایمان والوں کو اپنی بستی سے نکال دیں گے۔ اِلّا یہ کہ تم ہمارے مذہب میں واپس آجائو۔‘‘ (سورۃ الاعراف،آیات 88)۔

قوم کی اصلاح کے لیے تین باتیں: آیاتِ مذکورہ میں حضرت شعیب علیہ السلام نے قوم کی اصلاح کے لیے تین باتیں فرمائی تھیں۔ اوّل، اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ دوم، ناپ تول میں کمی نہ کیا کرو۔ اور سوم یہ کہ جس طرح ناپ تول میں کمی کرنا حرام ہے، اسی طرح حقوق انسانی میں کمی بھی حرام ہے۔ کسی کی عزت و آبرو پر حملہ کرنا، جس کی اطاعت واجب ہو، اُس کی اطاعت میں کمی کرنا، جس شخص کی تعظیم و تکریم واجب ہو، اُس میں کوتاہی برتنا۔

یہ سب امور اسی جرم میں شامل ہیں، جو شعیب علیہ السلام کی قوم کیا کرتی تھی۔ حضرت فاروق اعظمؓ نے ایک شخص کو جلدی جلدی رکوع، سجدے کرتے دیکھا، تو فرمایا۔ ’’قد طففت‘‘ یعنی تُونے ناپ تول میں کمی کردی۔ علامہ قرطبی نے فرمایا کہ جو لوگ راستوں میں بیٹھ کر خلاف شرع ناجائز ٹیکس وصول کرتے ہیں۔ وہ بھی قوم شعیب علیہ السلام کی طرح مجرم ہیں، بلکہ ان سے زیادہ ظالم و جابر ہیں۔ (معارف القرآن ،جلد 3، صفحہ 625,623)۔

اہلِ مدیَن اور اصحاب ایکہ: قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ: ’’ایکہ‘‘ بستی والوں نے بھی رسولوں کو جھٹلایا، جب کہ ان سے شعیب (علیہ السلام) نے کہا، ’’کیا تمہیں ڈر و خوف نہیں۔‘‘(سورۃ الشعراء، آیات 177,176)۔ ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ترجمہ:’’ایک بستی کے رہنے والے بڑے ظالم تھے (سورۃ الحجر، آیت 78)۔اصحاب مدیَن اور اصحاب ایکہ، ایک ہی قبیلے کے دو نام ہیں یا دو جُدا جُدا قبیلے ہیں؟ اس بارے میں مفسّرین کی رائے مختلف ہے۔ 

بعض کا خیال ہے کہ یہ دونوں جُدا، جُدا قبیلے ہیں۔ مدیَن، متمدّن اور شہری قبیلہ تھا اور اصحابِ ایکہ دیہاتی اور بدوی قبیلہ تھا، جو جنگل میں آباد تھا۔ عربی میں ’’ایکہ‘‘ اُن سرسبز و شاداب جھاڑیوں کو کہتے ہیں، جو ہرے بَھرے درختوں پر مشتمل، گھنے جنگلوں میں جُھنڈ کی شکل میں بہ کثرت ہوتی ہیں۔ آب و ہوا کی لطافت، نہروں، آب شاروں کی کثرت نے اس مقام کو انتہائی شاداب کردیا تھا اور یہاں میووں، پھلوں اور خوش بودار پھولوں کے اس قدر باغات تھے کہ اگر ایک شخص آبادی کے باہر کھڑے ہوکر نظارہ کرتا، تو اُسے یہ معلوم ہوتا تھا کہ یہ نہایت خُوب صُورت اور شاداب درختوں کا ایک بہت برا جُھنڈ ہے۔ اسی وجہ سے قرآنِ کریم نے اسے ’’ایکہ‘‘ کہہ کر تعارف کروایا۔ علامہ عماد الدین ابنِ کثیر لکھتے ہیں کہ ’’ایکہ‘‘ ایک درخت کا نام تھا۔ قبیلے کے لوگ اس درخت کی پُوجا کرتے تھے۔ چناں چہ اسی نسبت سے اہلِ مدیَن ہی کو ’’اصحابِ ایکہ‘‘ کہا گیا۔ بہرحال، اکثریت کی رائے میں یہ دونوں گروہ ایک ہی قبیلے اور نسل سے تعلق رکھتے تھے اور قومِ شعیبؑ کہلاتے تھے۔ (قصص القرآن، علّامہ حفظ الرحمٰن سیوہارویؒ، ص 262/1)۔

عذابِ الٰہی کا نزول: حضرت شعیب علیہ السلام نے ہر ممکن کوشش کرلی کہ کسی طرح اپنی قوم کو اعمالِ بد سے بچاکر راہِ راست پر لے آئیں، لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ یہ قوم اپنے کُفر و شرک پر مُصر ہے اور اُن پر وعظ و نصیحت کا کوئی اثر نہیں ہورہا، تو کہا، ’’اچھا تم اپنی ڈگر پر چلتے رہو۔ عن قریب تمہیں جھوٹے،سچّے کا اور اس بات کا کہ رسواکُن عذاب کا مستحق کون ہے؟ علم ہوجائے گا۔ تم انتظار کرو، میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں۔‘‘ (سورئہ ہود، آیت93)۔

علامہ ابنِ کثیر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قومِ شعیب پر تین طرح کے عذاب کا ذکر فرمایا ہے۔ زمینی بھونچال، چنگھاڑ اور آگ کا بادل۔ سورۃ الاعراف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ترجمہ:’’پس اُن کو زلزلے (زمینی بھونچال) نے آپکڑا۔ سو، وہ اپنے گھروں میں اوندھے کے اوندھے پڑے رہ گئے۔‘‘ (سورۃ الاعراف، آیت 91)۔ سورئہ ہود میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے، ترجمہ:’’ اور ظالموں کو سخت چنگھاڑ کے عذاب نے آدبوچا، جس سے وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ گویا اُن میں کبھی بسے ہی نہ ہوں۔ سن رکھو، مدیَن پر (ویسی ہی) پھٹکار ہے، جیسی قومِ ثمود پر تھی۔‘‘ (سورئہ ہود، آیات نمبر95,94)۔ سورۃ الشعراء میں فرمایا، ترجمہ:’’اُن لوگوں نے (شعیب) کو جُھٹلایا، پس، سائبان کے عذاب نے اُن کو آن پکڑا۔ بے شک، وہ بڑے (سخت) دن کا عذاب تھا۔ (سورۃ الشعراء، آیت نمبر189) ۔(دراصل، یہ تینوں عذاب وہ تھے، جو حضرت شعیب علیہ السلام کی دُعا کی مقبولیت کے بعد اللہ عِزّوجل نے قومِ شعیب پر نازل فرمائے۔ 

قوم کے متکبّر سرداروں نے جب حضرت شعیب علیہ السلام سے یہ کہا کہ ’’اے شعیب (علیہ السلام!) اگر تم سچّے ہو، تو (اپنے ربّ سے کہہ کر) ہم پر آسمان سے عذاب کا ایک ٹکڑا ہی گرادو۔ (سورۃ الشعراء آیت 187)۔ عذاب آنے کی اس فرمائش کے بعد حضرت شعیب علیہ السلام کو مکمل یقین ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے اُن لوگوں کے دِلوں پر مُہر ثبت فرما دی ہے اور اب اُن پر کسی بات کا اثر نہیں ہوگا، تو انہوں نے اپنے ربّ سے دُعا فرمائی۔ ’’اے پروردگار! ہم میں اور ہماری قوم میں انصاف کے ساتھ فیصلہ فرمادے اور تُو سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا ہے۔ (سورۃ الاعراف، آیت 89)۔

قوم ِشعیب نیست و نابود ہوگئی: علامہ عمّادالدین ابنِ کثیرؒ فرماتے ہیں کہ ’’اللہ نے جو صفات اہلِ مدیَن کی بیان فرمائیں، وہ اصحابِ ایکہ کی بھی فرمائیں۔ دونوں ایک ہی طرح کی برائیوں میں مبتلا تھے اور ایک ہی جماعت و امّت تھے، لیکن کئی قسم کے عذاب سے ہلاک ہوئے اور اللہ نے ہر جگہ وہاں کے مناسب عذاب کا ذکر فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے اُن پر سخت گرمی مسلط فرمائی اور سات دن مسلسل ہوا بند رکھی، جس کی وجہ سے نہ پانی اُن کی گرمی دُور کرسکا، نہ سایہ۔ چناں چہ یہ لوگ وحشت کے عالم میں گھروں سے نکل کر جنگل کی جانب بھاگے، جہاں اُن پر بادلوں نے سایہ کرلیا۔ 

یہ سب نہایت خوشی خوشی بادلوں کے اس گہرے سائے تلے جمع ہوگئے۔ ابھی وہ لوگ اس ابَر آلود سائے سے پوری طرح لطف اندوز نہ ہوپائے تھے کہ اچانک کالے سیاہ بادلوں میں سے آگ کے بھڑکتے ہوئے شعلے برسنے شروع ہوگئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے زمین نے اپنی پوری قوت کے ساتھ انہیں جھنجھوڑ ڈالا، یعنی شدید زلزلے نے انہیں آگھیرا، پھر آسمان سے ایک چیخ بلند ہوئی، تو اس سے ان کے کلیجے پھٹ گئے۔ جسموں کو تباہ و ویران کردیا اور یہ سب اوندھے گرے پڑے رہ گئے۔‘‘ (قصص ابنِ کثیرؒ ،ص 253)۔

قوم کی بربادی پر افسردہ: کچھ مفسّرین کے مطابق، یہ دو قومیں تھیں، جن کے نبی حضرت شعیب علیہ السلام تھے۔ جب کہ ان دونوں پر عذاب کی نوعیت بھی الگ تھی۔ بعض کا خیال ہے کہ قومِ شعیبؑ کے تین گروہوں پر الگ الگ عذاب نازل کیا گیا۔ (واللہ اعلم) بہرحال، قرآنِ کریم اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ قومِ ثمود کی طرح پوری قومِ شعیب ؑکو بھی عذاب کے ذریعے ختم کردیا گیا۔ قوم پرعذاب آتا دیکھ کر حضرت شعیب علیہ السلام اور اُن کے ساتھی وہاں سے چل دیے۔ 

جمہور مفسّرین نے فرمایا کہ یہ حضرات وہاں سے مکّہ معظمہ آگئے اور پھر آخر تک وہیں قیام رہا۔ قوم کی انتہائی سرکشی اور نافرمانی سے مایوس ہوکر شعیب علیہ السلام نے بُد دعا تو کردی، مگر جب اس کے نتیجے میں قوم پرعذاب آیا، تو پیغمبرانہ شفقت کے سبب دل دُکھا، تو اپنے دل کو تسلّی دینے کے لیے قوم سے خطاب میں فرمایا کہ ’’مَیں نے تو تمہارے رب کے احکام تم تک پہنچادیے تھے اور تمہاری خیرخواہی میں کوئی فروگزشت نہ کی تھی، مگر مَیں کافر قوم کا کہاں تک غم کروں۔‘‘ (قصص الانبیاء، مفتی محمد شفیع ؒ، صفحہ345)-

اسلام میں اصلاح معاشرہ کی اہمیت: علّامہ حفظ الرحمٰن سیوہاروی تحریر فرماتے ہیں کہ ’’ہم قرآنِ عزیز کی تعلیم سے یک سر غافل ہونے کی وجہ سے یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ اسلامی زندگی کے ارکان میں صرف ’’عبادات‘‘ ہی اہم ہیں اور معاملات میں درست کاری اور اصلاحِ معاشرت کی اسلام میں کوئی خاص اہمیت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ دَور میں فُسّاقِ امّت کا تو ذکر ہی کیا، اکثر اتقیاء اور پرہیزگار بھی حقوق العباد اور معاملات میں بے پروا نظر آتے ہیں، مگر حقوق العباد کی حفاظت معاشرتی درست کاری اور معاملات میں دیانت و امانت کو اسلام میں کس درجہ اہم شمار کیا گیا ہے۔ 

وہ اس سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک اپنے جلیل القدر پیغمبر کی بعثت کا مقصد اسی کو قرار دیا اور ان کو ان ہی امور کی اصلاح احوال کے لیے رسول بناکر دنیا میں بھیجا۔خریدو فروخت میں دوسروں کا حق پورا نہ دینا انسانی زندگی کو ایسا روگ لگا دیتا ہے کہ پھر یہ بداخلاقی بڑھتے بڑھتے حق تلفی کی خصلت پیدا کردیتی ہے اور اس طرح انسانی شرافت اور باہمی اخوّت و مودّت کا رشتہ منقطع کرکے لالچ، حِرص، خودغرضی اور خست ودنائت جیسے رزائل کا حامل بنادیا کرتی ہے۔ 

سورئہ ہود میں اسی حقیقت کو واضح کیا گیا ہے کہ ناپ تول میں انصاف صرف اشیاء کی خریدو فروخت ہی تک محدود نہیں ہے، بلکہ انسانی کردار کا یہ کمال ہونا چاہیے کہ خدا اور اس کے بندوں کے تمام حقوق و فرائض میں ایک اصل کو بنیاد کار بنائے اور کسی موقعے اور کسی حالت میں بھی عدل و انصاف کے ترازو کو ہاتھ سے نہ جانے دے۔ (قصص القرآن، 269/1)۔