بسنت کے موضوع پر عوام اور سرکار کے درمیان کامیاب مذاکرات کے بعد مُلک کی مختلف مذاکراتی ٹیموں نے عالمِ اسلام کی پہلی اور آخری ایٹمی طاقت سے مذاکرات کرنے کی خواہش کا اظہار کر دیا ہے۔ یہ ٹیمیں اپنے آپ کو عوامی خدمت جیسے نازک اور باریک کام میں دن رات مصروف رکھتی ہیں اس لیے ان کی خدمات کی تفصیلات کو ابھی تک ٹی وی ا سکرینوں اور اخبارات کے صفحات پر جگہ نہیں مل سکی۔ وکالت نامہ بھی ایک خدائی خدمت گار قسم کا رابطہ کار ہے، لہٰذا ان ٹیموں کی خواہشات اپنی شاہی سرکار کے دربار تک اس کالم کے کندھے پر بٹھا کر پہنچاتے ہیں۔تفصیلِ درجِ ذیل ہے۔
پہلی ٹیم آلو کنگ کی سربراہی میں قائم ہوئی ہے۔ جس نے 66 سال بعد سوات کے میٹھے اور عارف والا کے پھیکے آلووٗں کی بجائے ملک میں چنبیلی، نشیلی، چمکیلی اور جلیبی برانڈ کے بھارتی آلو متعارف کرا کر غریب عوام کی تلخی سے بھر پور زندگی میں صرف ستر، اسی روپے کلو کے حساب سے شہروں سے لے کر دیہات تک ڈھیروں رنگینی بھر دی ہے۔ آلو کنگ کا دعویٰ ہے کہ اگر اس کے مطالبات مان لئے جائیں تو محض چند ماہ میں پورا پاکستان آلو آلو ہو جائے گا۔ مذاکرات کی لائن میں دوسری ٹیم چینی گُل کی ہے جس کی انتھک کوشش سے ملک بھر میں چینی کو قومی ورثہ کا درجہ اور 15،20 روپے کلو کے حساب سے گلی گلی ذلیل و خوار ہونے والی چینی 200 روپے فی کلو کا باوقار مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ ویسے بھی چینی گُل کو نہ تو چینی عوام کی عادتیں اچھی لگتی ہیں اور نہ ہی چینی حکومت۔ چین کے ساتھ اس کا بنیادی نظریاتی اختلاف ہے۔ چینی گُل کا کہنا ہے کہ چین بھی کوئی مُلک ہے کہ جس کی حکومت نہ کسی کو کھلے عام رات کو سڑک پر سونے کا موقع دیتی ہے۔ نہ شرٹ پتلون سے محروم ہونے دیتی ہے۔ اور نہ ہی کسی کا جامہ اُتارنے دیتی ہے۔ نہ ہی چین میں بسنے والے کرۂ ارض کا ہر پانچواں انسان خالی پیٹ سوتا ہے۔ چینی گُل یہ بھی سمجھتا ہے کہ اگر قوم اور سرکار اسے خدمت کا صرف ایک موقع دے تو وہ اگلے بجٹ کے آنے سے پہلے پہلے ہر پاکستانی کے خون کی شریانوں میں شکر ہی شکر دوڑا سکتا ہے۔
مذاکرات کا ایک اور خواہش مند اپنے آپ کو چکن ہارٹ کہتا ہے۔ یہ ٹیم ہر قسم کے شیروں کو اپنا حلیف سمجھتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ چکن کا دل غریب عوام کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ اسی لئے چکن نے اپنی قیمت 45 روپے کلو سے 245 کر دی ہے تاکہ غریبوں اور مرغیوں کے دل ایک ساتھ دھڑکتے رہیں اور اس میں پرائس کنٹرول کا کوئی قانو ن ظا لم سماج کا کردار ادا نہ کرے۔ چکن ہارٹ کے پاس ہارٹ کے مریضوں کے لئے بھی خوش خبری ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ اگر اسے PIAکے 26 فیصد شیئر دے دیئے جائیں۔ ساتھ ساتھ قومی ائر لائن کی نجکاری میں اس کی بولی قبول کر لی جائے تو وہ جنرل مشرف کے عقاب سے بھی زیادہ بلندی پر چکن ہارٹ ائیر لائن کو پہنچا سکتا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ دُنیا میں اُڑنے والے سارے جہاز اس کی ائیر لائن کے مقابلے میں چکن قورمہ ثابت ہوں گے۔
اسٹریٹ کرائم سنڈیکیٹ کی مرکزی تنظیم بھی اہم مسائل پر ڈائیلاگ کی خواہش مند ہے۔ اس کی مرکزی قیادت تو بڑے بڑے ایوانوں میں پائی جاتی ہے۔ ہاں البتہ اس کے جاں نثار جو بے شمار ہیں وہ چاہتے ہیں کہ موبائل فون کے سیٹ کی قیمت کم از کم ایک لاکھ روپے مقرر کی جائے۔ شاپنگ سینٹروں میں جانے والی خواتین پر لازمی پابندی لگائی جائے کہ وہ اپنے سارے زیورات ہینڈ بیگ یا شولڈر بیگ میں محفوظ کر کے رکھیں۔ ان کی یہ تجویز بھی مُلکی معیشت کو مزید متحرک کر سکتی ہے کہ بینکوں کے اکاونٹ ہو لڈر صرف اور صرف ATM مشین استعمال کریں۔ اس طرح دولت چند ہاتھوں میں جمع اور پابند نہیں ہو گی۔ جبکہ پاکستانی کرنسی کی گردش کے ذریعے پاکستان جلد ہی ایشین ٹائیگر بن جائے گا۔ چند عدد قومی مالیاتی اداروں، ریلوے، پی آئی اے، پاکستان اسٹیل مل اور ساڑھے تین سو سے زیادہ چھوٹے بڑے قومی اداروں کی لُوٹ سیل کے لئے بنائے گئے مشترکہ بزنس فورم کے ارکان بھی گفتگو کے لئے سخت بے چین ہیں۔ آج کل ان کا نعرہ قومی ملکیت جاوے ای جاوے اور اپنی نج کاری آوے ای آوے جیسا میوزیکل اور ردھم سے بھر پور ہے۔ پھر جب سے وفاق نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے لئے اپنے پیٹرن انچیف کے ساتھ گفتگو کا دروازہ بند کیا ہے ۔ اُس وقت سے سری نواسن کی قیادت میں بر صغیر کے تمام ’’بُکی ‘‘ مذاق رات کے نشے میں جھوم رہے ہیں۔
ہاں کچھ ممنوعہ موضوعات ایسے بھی ہیں جو اس لائن کے آخری سِرے سے بھی اور آخر میں پہنچ چکے ہیں۔ جیسے جموں اجنالہ سے لے کر لائن آف کنٹرول کے دوسرے سرے تک دیوارِ برلن سے اونچی، دیوارِ اسرائیل سے مضبوط اور دیوارِ کوریا سے چوڑی اکتالیس میل لمبی وہ دیوارِ برہمن ہے جس کو ہم آلو ٹماٹر، پیاز دھنیا اور ادرک جیسے نظریاتی اور قومی مسائل پر کیسے ترجیح دے سکتے ہیں...؟برادرانِ کشمیر کے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ بے گور و کفن لاشے اور دخترانِ کشمیر کی پچاس ہزار سے زیادہ عفت و عصمت کے ماتم کدے سے بلند ہونے والی آہیں، بہنے والے آنسو اور نہ ختم ہونے والی سسکیاں ہم بعد میں دیکھ لیں گے اس وقت تو ہمیں نئی دیلی میں ٹریڈ میلہ سجانا ہے۔ آخر غیرت مند قومیں کسی سے ڈکٹیشن کیوں لیں...؟ ہم اپنی ترجیحا ت خود اپنے ہاتھ سے طے کرتے ہیں۔ ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اس عظیم قوم کا مفاد کہاں ہے...؟جس کے مستقبل کو محفوظ سے محفوظ تر بنانے کے لئے ہم نے آئی ایم ایف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہر پاکستانی کو پیدائشی طور پر بانوے ہزار روپے کا مقروض بنا دیا ہے۔ تاکہ وہ جب اور جس دور میں چاہے مزید قرضہ لے کر پچھلا قرضہ آئی ایم ایف کے منہ پر دے مارے۔آپ قسم کھا کر بتائیں کیا کوئی اور نظام ایسا ہے جس نے ہم وطنوں کی معیشت کو یوں محفوظ بنایا ہو...؟
کاروباری اور نج کاری کی وزارتوں کی مصروفیت قوم خود دیکھ لے۔ ہمیں چاہیے کہ فوری طور پر وزارتِ مذاکرات قائم کردیں اور اس کا قلم دان نجی ملکیت کے دفتر سے باہر نہ نکلنے دیں۔ آخر سنجیدگی کا بھی تو کوئی تقاضا ہوتا ہے۔ مذاق کی آخری حد کی طرح...!