• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عام انتخابات،خصوصاً پولنگ کے عمل میں انتخابی نشان کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ۔سیاسی جماعتیں، ووٹر اور خود الیکشن کمیشن بیلٹ پیپرز کی چھپائی سے لیکر ووٹوں کی گنتی تک اپنے امور کو آسان اور شفاف بنانے میں اس سے مدد لیتے ہیں۔مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور دوسری جماعتوں کی طرح پاکستان تحریک انصاف کی اس کے ووٹروں میں مقبولیت میںاس کا انتخابی نشان بلا 2018ءکے انتخابات کے موقع پر ابھرکر سامنے آیاتھا۔حالیہ دنوں میں پی ٹی آئی کے اندرونی انتخابات (انٹرا پارٹی الیکشن) پر اٹھنے والے الیکشن کمیشن کے سوالات اوراس کی روشنی میں بلے کا انتخابی نشان واپس لینے کا اقدام اس کی قیادت نے پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیاجہاں جسٹس کامران حیات میاں خیل پر مشتمل سنگل بینچ نے سماعت کے بعدتین صفحات پر مشتمل حکم نامے میں انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دینے اور بلے کا نشان واپس لینے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کردیااور فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے قرار دیا کہ رٹ پٹیشن کو موسم سرما کی تعطیلات کے بعد ڈویژن بینچ کے سامنے سماعت کیلئے رکھا جائیگا ۔عدالتی حکم نامے میں الیکشن کمیشن کو پی ٹی آئی کا سرٹیفکیٹ ویب سائٹ پر ڈالنے اور انتخابی نشان بحال کرنے کی بھی ہدایت کی گئی۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کرنا اس کے ووٹروں کی حق تلفی ہے ،اگر پارٹی سے انتخابی نشان واپس لے لیا جائے تو پھر کیا رہ جاتا ہے، اگر مسلم لیگ ن سے شیر، پیپلز پارٹی سے تیر اور جے یو آئی سے کتاب کا نشان لے لیا جائے تو کیا ہوگا؟الیکشن کمیشن ایک پارٹی کوانتخابات سے آئوٹ کر رہا ہے ، اگر کل عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ آرڈر ٹھیک نہیں ہے تو پھر کیا ہوگا؟سماعت کے موقع پر الیکشن کمیشن کا کوئی وکیل عدالت میں موجود نہیں تھا۔پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے اپنے دلائل میں کہا کہ الیکشن کمیشن کے حکم کے مطابق پی ٹی آئی نےانٹرا پارٹی الیکشن کرائے ،ای سی پی نے تسلیم کیا کہ انتخابات ٹھیک ہوئے لیکن جس بندے نے انتخابات کرائے اس کی تعیناتی ٹھیک نہیں۔پی ٹی آئی کے وکیل کا کہنا تھا کہ انتخابی نشان نہ ہونے کی صورت میں پارٹی کو مخصوص نشستیں بھی نہیں مل سکتیں ۔اس پر فاضل جج نے کہا کہ میں نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ نہیں پڑھا،کیا صرف یہی لکھا ہے کہ الیکشن کرانے والے کی تعیناتی غلط ہے؟ علی ظفر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس کے پاس انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دینے کا اختیار ہی نہیں۔الیکشن کمیشن کو درخواست دینے والے وکیل نوید اختر نے اپنے دلائل میں کہا کہ ہم نے پی ٹی آئی کے مقررہ وقت میں انتخابات نہ کرانے کے خلاف درخواست دی تھی جس پر عدالت نے رولنگ دی کہ الیکشن کمیشن نے20 دن کا وقت دیا تو آپ کی بات ختم ہوگئی۔ادھرکاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کا عمل اپنے شیڈول کے مطابق جاری ہے ۔نوازشریف،آصف علی زرداری، بلاول بھٹو، لطیف کھوسہ،فضل الرحمان ،لیاقت بلوچ اور چوہدری نثار سمیت کئی رہنمائوں کے کاغذات منظورہوگئے ہیں ۔پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ تمام عدالتی فورموں پر چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے ۔سیاسی جماعتوں کی اساس ان کے اندر پائی جانے والی جمہوری سوچ اوراقدار پر استوار ہوتی ہے جسے آئین کی روشنی میں خودمختار قومی ادارہ الیکشن کمیشن ضابطے کی شکل دیتاہے اور سیاسی جماعتوں کو اس کا پابند بناتے ہوئے شفاف جنرل الیکشن کا انعقاد اپنے ذمہ لیتا ہے۔پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن اور انتخابی نشان کا معاملہ کیا نتائج دے سکتاہے، زمینی حقائق کی روشنی میں سپریم کورٹ تک جاتا دکھائی دے رہا ہے جس کے منطقی انجام کو پہنچانے میں فریقین کو دیر نہیں کرنی چاہئے۔

تازہ ترین