• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلا شبہ، ہم حالتِ جنگ میں ہیں، لاشے گر رہے ہیں، منظر لہو میں لتھڑا ہوا ہے۔ لیکن یہ جنگ ذرا مختلف طرح کی جنگ ہے جس میں ہم اپنے آپ سے برسرِ پیکار ہیں، ہم گولی چلاتے ہیں اور ہمارا ہی سینہ چھلنی ہو جاتا ہے، ہم بارودی سرنگ بچھاتے ہیں اور پھر خود ہی اس پر پائوں دھر دیتے ہیں، خود کو زیر کرتے ہیںاور پھر اپنے ہی سینے پر بیٹھ جاتے ہیں، جس طرح کینسر کی بیماری میں جسم ہی جسم کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیتا ہے کچھ ایسی ہی حالت ہماری ہے، ہم خود سے لڑ رہے ہیں، ہماری آنکھوں میں خون اترا ہوا ہے، ہم اپنی تلوار سے اپنا سر قلم کر دینا چاہتے ہیں۔حضرتِ جونؔ فرماتے ہیں ’’میری دوئی ہے میرا زیاں....اپنا زیاں ہوں میں یا میں۔‘‘

ہمارے سب زخم ہمارے اپنے شوقِ شمشیر زنی کے شاخسانے ہیں۔ سقوطِ ڈھاکا ہماری قومی زندگی کا سب سے بڑا سانحہ ہے اور دسمبر کے مہینے میں یہ زخم پھر سے ہرا ہونے لگتا ہے۔بے شک، مشرقی پاکستان ہماری تخریبِ ذات کی خواہش کی سب سے نمایاں مثال ہے۔ ہم نے اپنے وجود کو کاٹنے کی پیہم کوشش کی اور آخر پچیس سال کی سعی رنگ لائی، اور 1971ء میں ہم دو ٹکڑے ہو گئے۔ روزِ اول سے بنگالی زبان کی تضحیک کامشورہ ہمیں یہود و ہنود نے نہیں دیا تھا، یہ ہماری اپنی ’دور اندیشی‘ کا نتیجہ تھا، 1954ءمیں بنگالیوں کی نو منتخب صوبائی حکومت توڑ کرعوام کی حاکمیت کے بنیادی جمہوری اصول کی نفی کافیصلہ ہماری اپنی بے کراں دانش کا شاخسانہ تھا، یہ کسی ہندو بنیے کی مکروہ سازش تو نہیں تھی۔ ہم نے خواجہ ناظم الدین سے حسین شہید سہروردی تک، بنگالیوں کی توہین کی، ان کا معاشی، سیاسی، معاشرتی اور تہذیبی استحصال کیا، اور بالآخر، پہلے قومی انتخاب کے بعد اقتدار اکثریتی جماعت عوامی لیگ کو منتقل کرنے سے انکار کر دیا، اور جب پاکستان کے شہریوں کی اکثریت نے اپنا حقِ حکم رانی مانگا تو ـاقلیت نے ان پر لشکر کشی کا تاریخی فیصلہ فرما دیا۔ اس سارے قضیے میں’دشمن‘ کون تھا؟ ہم خود ہی تو تھے، ہماری گولیاں تھیں اور ہمارا سینہ، ہماری تلوار اور ہماری گردن۔ مشرقی پاکستان کے تجربے سے ہمارے حوصلے بلند ہوئے اور دو سال بعد ہی ہمارے جنگی جہاز بلوچستان میں بم باری کر رہے تھے۔بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد سندھ میں احتجاج کاآغاز ہوا تو ہم نے جنگی جہازوں کا رخ اندرون سندھ کی طرف موڑ دیا۔ خیبر پختون خوا کو تو پینتالیس سال سے ہم نے میدانِ جنگ بنا رکھا ہے، ہم نے بنائے طالبان، ہم نے بنائی ٹی ٹی پی، ہم ہی کبھی انہیں نکالتے ہیں کبھی دوبارہ لا کر آباد کرتے ہیں، ہمارے ہاتھ میں ایک زہر میں بجھا ہوا خنجر ہے جسے ہر لحظہ ہم اپنے سینے میں بھونکنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔

ایک خاتون اینکر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سے بات کر رہی ہے، اور بات کیا کر رہی ہے بس بار بار ایک ہی سوال کرتی جاتی ہے کہ ’کیا آپ بلوچستان میں پنجابیوں کے قتل کی مذمت کرتی ہیں؟‘ ایک دم یہودی میڈیا یاد آیا، جب اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی میں مصروف تھا، تو یہودی میڈیا اپنے ہر مہمان سے ایک ہی سوال کرتا تھا ’’کیا آپ اسرائیل پر حماس کے حملے کی مذمت کرتے ہیں؟‘‘ گویا مشرقِ وسطیٰ کے قضیے کی تاریخ سات اکتوبر سے آغاز ہوتی ہے۔ حال آں کہ سچ یہ ہے کہ اسرائیل 75 سال سے فلسطینیوں کی نسل کشی کے گھنائونے جرم میں ملوث ہے۔بلوچستان کے لاپتا افراد ایک حقیقت ہیں، اس حقیقت کا مقابلہ کسی اوٹ پٹانگ جوابی بیانیے سے دینے کی کوشش کرنا بھی شقی القلبی کے زمرے میں آئے گا۔بلوچستان کے سینے پر مسنگ پرسنز کا گھائو ہے، اس پر پھاہا رکھنے کی ضرورت ہے، نمک چھڑکنے کی نہیں۔اس میں کیا شک ہے کہ ہمارے سینے کا یہ زخم ہمارے ہی چاقو کی عطا ہے، یہ بی ایل اے اور مکتی باہنی تو مکھیوں کی طرح ہوتی ہیں جو رِستے ہوئے زخموں پر آن بیٹھتی ہیں۔ نوروز خان سے اکبر بگٹی تک،بلوچستان کی کہانی لہو کے دھبوں سے سجی ہوئی ہے، یہ دھبے دھونے کی ضرورت ہے، یہ مسئلہ اخلاص سے حل کیجیے، چالاکی سے نہیں۔ مشرقی پاکستان پر ہمارا بیانیہ دنیا نے نہیں مانا تھا، بلوچستان کے مسنگ پرسن کا معاملہ بھی بہت واضح ہے، ہم لاکھ کوشش کر لیں ہمارا جوابی بیانیہ کسی کو بے وقوف نہیں بنا پائے گا۔

جدھر نظر پڑے یہ ریاست خود سے دست و گریباں دکھائی دیتی ہے، خود کو پچھاڑ کر، اپنی چھاتی پر چڑھ کر بیٹھی ہوئی ریاست۔ پہلے ہم مسیحا تراشتے ہیں، جس میں دنیا بھر کے اوصاف حسنہ اکٹھے ہوتے ہیں، جو قوم کی نیّا پار لگانے کے لیے موزوں ترین شخص قرار پاتا ہے، کچھ دیر بعد یہ عقدہ کھلتا ہے کہ موصوف مسیحا نہیں بلکہ خون آشام عفریت ہے، پہلے اس شخص کے نام کی مالا صبح شام جپنا لازم قرار دیا جاتا ہے، پھر اس کا نام لینے پر بھی پابندی لگا دی جاتی ہے، نہ ہیرو کا پتا لگتا ہے، نہ ولن کی سمجھ آتی ہے، نہ کوئی اصول ہے نہ کوئی اعتبار، ابھی کچھ ابھی کچھ، ایسے نظام بجا طور پر نا معتبر بلکہ مضحکہ خیز سمجھے جاتے ہیں۔

انتخابات جیسے بنیادی اور اہم جمہوری عمل کا ہم نے جو حال کر دیا ہے، الاماں۔ 2018ءکے انتخابات سے پہلے ہم مسلسل اس خدشے کا اظہار کرتے رہے تھے کہ بے ہودہ انتخاب بارودی سرنگیں بچھانے کے مترادف ہوا کرتے ہیں، متنازع انتخاب کسی مسئلے کا حل تھوڑی ہوتے ہیں، وہ تو بہ ذاتِ خود مسئلہ ہوا کرتے ہیں، انتخاب میں دھاندلی، جوابی دھاندلی کی دلیل بن جایا کرتی ہے، یہ ایک شیطانی چرخہ ہے، اس سے حذر کیجیے۔ مگر یہ صدا صحرا میں گونج کر رہ گئی۔ بہرحال، جو گرہیں 2018ء میں ہاتھوں سے لگائی گئی تھیں، انہیں 2024 ء میں کھولنے کیلئے دانت درکار ہیں...تیز اور نوکیلے دانت۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین