• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر سال دسمبر میں یہ سوا ل زیر بحث آتا ہے کہ سقوط پاکستان اور ڈھاکہ میں شرمناک شکست کا ذمہ دار کون ہے؟ تعصب اور بغض میں مبتلا بعض افراد اصرار کرتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کو اس ناکامی کا ذمہ دار قرار دیا جائے۔ ان کے مطابق بھٹو نے محض اس لئے ملک کو تقسیم کردیا کہ وہ اپوزیشن بنچوں پر نہیں بیٹھنا چاہتے تھے۔ اس تناظر میں ’’اِدھر ہم اُدھر تم‘‘ کی مبینہ پیشکش کا ذکر کیا جاتا ہے جس کے تحت مشرقی اور مغربی پاکستان کیلئے الگ الگ وزرائے اعظم کی تجویز دی گئی۔ قومی اسمبلی کے ڈھاکہ میں ہونے والے افتتاحی اجلاس میں شرکت کیلئے جانے والے ارکان پارلیمنٹ کی ٹانگیں توڑ دینے کی دھمکی کا ذکر کیا جاتا ہے۔ پولینڈ کی قرارداد مسترد کرکے باعزت جنگ بندی کا موقع گنوانے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ کیوں نہ آج ہم تاریخی حقائق کی روشنی میں اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کریں؟

آپ نے تحریک انصاف کے بانی عمران خان کو اکثریہ کہتے سنا ہو گا کہ یورپ کو مجھ سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ پاکستان کے دوسرے فوجی حکمراں جنرل یحییٰ خان کو بھی یہی خوش فہمی تھی۔ ایک بار انٹرویو کے دوران کسی سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے فرمایا کہ میں مشرقی پاکستان سے اپنی ہتھیلی کی طرح واقف ہوں۔ درحقیقت یحییٰ خان کو آخری وقت تک یہ حقیقت معلوم نہ ہو سکی کہ جس مشرقی پاکستان کو وہ بنگالیوں سے زیادہ جاننے کا دعویٰ کرتے ہیں، اس ہتھیلی میں کئی چھید ہو چکے ہیں۔ اختیارات کے اعتبار سے تو انہیں گھنٹہ گھر کی حیثیت حاصل تھی مگر ان تک پہنچنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ مشرقی پاکستان کے حالات بگڑ جانے اور مغربی پاکستان کے محاذ پر بھارت کے ساتھ جنگ چھڑ جانے کے بعد بھی جنرل آغا محمد یحییٰ خان تک رسائی حاصل کرنے کیلئے کئی پاپڑ بیلنا پڑتے۔ وہ اپنے چند درباریوں کے علاوہ کسی کو میسر نہ تھے ۔غیر ملکی صحافی اکثر ان سے یہ سوال پوچھتے کہ آپ آئوٹ آف ٹچ ہیں تو وہ غصہ کر جاتے۔ روئیداد خان، جو ان دنوں وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات کے سیکریٹری تھے، اپنی کتاب ’’Pakistan a dream gone sour‘‘میں لکھتے ہیں۔ ’’اپنا دُکھ بانٹنے کیلئے میں نےنائب صدر نورالامین سے رابطہ کیا جو مشرقی پاکستان ہائوس میں رہ رہے تھے۔ ان کے دوست اور مستقل ساتھی محمود علی بھی ان کے ہمراہ تھے۔ میں نے سچے پاکستانی اور عظیم محب وطن نورالامین کو اس سے پہلے کبھی اس قدر غصے میں نہیں دیکھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ دو دن سے صدر (یحییٰ خان) سے ملنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ میں نے فوری طور پر سبزرنگ کے ٹیلیفون سے یحییٰ خان سے رابطہ کیا اوراسی شام انکی ملاقات طے کروا دی۔یحییٰ خان نے مجھ سے کہا کہ آپ بھی نورالامین کے ساتھ ایوان صدر آجائیں ۔جب ہم وہاں پہنچے تو جنرل حمید پہلے سے وہاں موجود تھے اور وہ سب شراب پی رہے تھے۔ نورالامین برس پڑے اور صدر( یحییٰ خان) کو مخاطب کرکے کہنے لگے ،سقوط ڈھاکہ ہو چکا ،مشرقی پاکستان چلا گیا اور تم وہسکی کے مزے لے رہے ہو؟‘‘

روئیداد خان کسی غلط فہمی کے باعث نورالامین کو نائب صدر لکھ گئے حالانکہ وہ ان دنوں وزیر اعظم تھے اور ذوالفقار علی بھٹو کے بطور سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اقتدار سنبھالنے کے بعد نائب صدر بنے۔قابل غور بات یہ ہے کہ ان ہنگامہ خیز حالات میں ایک منتخب عوامی نمائندہ جس پر وزیراعظم ہونے کی تہمت بھی تھی ،وہ تو یحییٰ خان سے رابطہ کرنے سے قاصر تھا مگر بیسویں گریڈ کے ایک بابو نے ایوان صدر رابطہ کیا تو نہ صرف بات ہو گئی بلکہ ملاقات کا وقت بھی عنایت کر دیا گیا۔

بھارتی فوج مشرقی پاکستان میں داخل ہو چکی تو ڈھاکہ کے پلٹن گرائونڈ میں جنرل نیازی کے شرمناک سرنڈر سے چند روز قبل یحییٰ خان نے ایک اور چال چلی۔ 7؍دسمبر1971ء کو بنگالی رہنما نورالامین کو وزیراعظم بنا دیا گیا جبکہ ذوالفقار علی بھٹو کو وزیر خارجہ اور نائب وزیر اعظم مقرر کر دیا گیا۔ جب پاک فوج ڈھاکہ کے رمنا ریس کورس گرائونڈ میں سرنڈر کر رہی تھی تو وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں جذباتی تقریر کرتے ہوئے کہا، ہمیں ہزار سال بھی لڑنا پڑا تو لڑیں گے۔ اگر تم لے سکتے ہوتو پانچ یا دس سال کیلئے مشرقی پاکستان لے لو لیکن ہم یہ واپس لیکر رہیں گے کیونکہ یہ تاریخ کا سبق ہے ذوالفقار علی بھٹو نے جذباتی تقریر کے بعد ہاتھ میں پکڑے ہوئے کاغذ پھاڑ کر پھینک دیئے اور اجلاس سے اُٹھ کر چلے آئے۔ بھٹو کیخلاف سقوطِ ڈھاکہ کی چارج شیٹ کے حوالے سے ایک الزام یہ بھی ہے کہ انہوں نے پولینڈ کی جنگ بندی سے متعلق قرارداد پھاڑ کر باعزت سمجھوتے کا موقع گنوا دیا لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ بھٹو نے اس تقریر کے ذریعے شرمندگی و خجالت کم کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے جو کاغذ پھاڑ ڈالے، وہ پولینڈ کی قرارداد نہیں بلکہ ان کی تقریر سے متعلق نوٹس تھے۔ جب بھٹو 15دسمبر کو سلامتی کونسل میں تقریر کر رہے تھے تو ڈھاکہ میں 16دسمبر کا سورج طلوع ہو چکا تھا اور ہتھیار ڈالنے کی تقریب کے تمام انتظامات مکمل تھے۔ بھٹو اس قرارداد کو مسترد نہ کرتے تو محض اتنا فرق پڑتا کہ سرنڈر کی شرمناک دستاویز میں ان کا نام بھی شامل ہو جاتا۔ رہی بات ’’اِدھر ہم اُدھر تم‘‘ کی تو اس شہہ سرخی کے خالق مرحوم اطہر عباس اپنی زندگی میں ہی وضاحت کر چکے ہیں کہ بھٹو نے یہ الفاظ نہیں کہے بلکہ یہ ان کے اپنے ذہن کی اختراع تھی۔

بھٹو کوان حالات میں کیا کردار ادا کرنا چاہئے تھے، یقیناً اس پر بات ہو سکتی ہے لیکن ایک اپوزیشن رہنما کوملک توڑنے کا ذمہ دار کیسے قرار دیا جاسکتا ہے؟ اس کی مثال تو ایسے ہی ہے کہ خدانخواستہ اگر آج کوئی حادثہ پیش آئے تو اس پر بلاول کو مورد الزام ٹھہرایا جائے۔3مارچ کو ہونے والا اجلاس کس نے ملتوی کیا؟عنان اقتدار اکثریتی جماعت کے حوالے کرنے کی ذمہ داری کس کی تھی؟ شراب و شباب کے نشے میں امورحکومت سے غافل کون تھا؟ جغرافیائی سرحدوں کا تحفظ کس کا فرض تھا؟ لہٰذا صرف اور صرف یحییٰ خان ہی پاکستان توڑنے کے ذمہ دار ہیں۔

تازہ ترین