عمران احمد سلفی
ارشادِ ربّانی ہے: تم بہترین امت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لئے ظاہر کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو، اور اگر اہلِ کتاب بھی ایمان لے آتے تو یقینا ًان کے لئے بہتر ہوتا، ان میں سے کچھ ایمان والے بھی ہیں اور ان میں سے اکثر نافرمان ہیں۔(سورہ ٔآل عمران)
اس آیت مبارکہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے امت محمدیہ کی باقی تمام امتوں اور قوموں کے مقابلے میں فضیلت وشان بیان فرمائی ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ مخلوق خدا کو نفع پہنچانے کے لئے وجود میں آئی ہے۔ اس کا سب سے بڑا نفع یہ ہے کہ یہ مخلوق کی روحانی اور اخلاقی اصلاح کی فکرکرتی اور یہ اس امت محمدیہ کا فریضہ منصبی ہے۔ اگرچہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر( یعنی لوگوں کو نیکیوں کا حکم کرنے اور برائیوں سے روکنے)کا حکم پچھلی امتوں کو بھی دیا گیا تھا،لیکن اس کی تکمیل اسی امت کے ذریعے ہوئی ہے۔
دوسرا پچھلی امتوں نے اس حکم کو چھوڑ دیا تھا،جب کہ اس امت محمدیہ کے حوالے سے نبی آخر الزماں ،محمد عربیﷺ کی پیش گوئی ہے کہ اس امت میں تاقیامت ایک جماعت ایسی قائم رہے گی جو برابر یہ فریضہ انجام دیتی رہے گی۔ یہی اس امت کی وجہ افتخار و وجہ امتیاز ہے۔ امام قرطبی ؒ احکام القرآن میں فرماتے ہیں کہ’’یہ اعزاز اِس امت کے پاس اس وقت تک برقرار رہے گا، جب تک وہ اس دین پر قائم رہے گی اور نیکی کا حکم دینے اوربرائی سے روکنے والی صفت ان میں باقی رہے گی۔اگر انہوں نے برائی کواچھائی سے بدلنے کی بجائے اس برائی کو خود اپنا لیا تو یہ اعزاز ان سے خود بخود چھن جائے گا‘‘۔
اس کی تائید نبی کریم ﷺکی اس روایت سے ہوتی ہےجس میں آپﷺ نے تین جرائم کی تین سزائیں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:جو امام جلال الدین السیوطی ؒنے اپنی تفسیر دُرِّمنثور میں نقل فرمائی ہے کہ ’’جب میری امت دنیا کو بڑی چیز سمجھنے لگے گی تو اسلام کی ہیبت و وقعت اس کے قلوب سے نکل جائے گی۔ جب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑ بیٹھے گی تو وحی کی برکات سے محروم ہوجائے گی اور جب آپس میں گالی گلوچ اختیار کرے گی تو اللہ جل شانہ کی نگاہ سے گر جائے گی‘‘۔ اسی طرح صحیح بخاری میں حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے نقل کردہ روایت سے واضح ہوتا ہے کہ کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک فلاح نہیں پا سکتا،جب تک کہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کو انجام نہ دے۔
اللہ تعالیٰ نے پوری انسانیت کو، بلکہ جنوں کو بھی اپنی عبادت کرنے کے لئے پیدا فرمایا ہے، لیکن اس امت کے لئے صرف عبادت کافی نہیں، اسے یہ امتیاز بخشا گیا ہے کہ وہ سلسلہ نبوت کے ختم ہونے کے بعد کارِ نبوت انجام دے اور وہ یہ ہے کہ اللہ کے بندوں کو نیکی کی طرف بلائے اور برائی سے منع کرے، اسی کو قرآن مجید میں ’’امر بالمعروف اور نہی عن المنکر‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے ’’معروف‘‘ کے اصل معنی مشہور اور جانی پہچانی چیز کے ہیں، مقصد یہ ہے کہ نیکی کی طرف اس قدر دعوت دو کہ معاشرے میں اس کا عام چلن ہوجائے، وہ عرف ورواج کا درجہ حاصل کرلے اور ہر عام و خاص اس کے مطابق عمل کیا کرے، ’’منکر‘‘ ایسی چیز کو کہتے ہیں جو اَن جانی اورغیر پہچانی ہو، جو مشہور نہ ہو، اور جو عادت و رواج کے خلاف ہو، قرآن مجید نے برائی کو ’’منکر‘‘ سے تعبیر کرکے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ برائی سے اس قدر روکا جائے کہ وہ معاشرے میں ایک نامعلوم چیز بن جائے،جو عام رواج و معمول کے خلاف ہو۔یہ کیفیت اسی وقت پیدا ہوسکتی ہے،جب معاشرے میں معروف کی دعوت اور برائی سے روکنے کی مہم پوری اہمیت اورسنجیدگی کے ساتھ انجام دی جائے۔
دعوتِ دین کا کوئی خاص طریقہ قرآن و حدیث میں متعین نہیں کیا گیا ہے، داعی کی صلاحیت، مدعوکے مزاج اورماحول کے تقاضوں کے مطابق مختلف طریقوں پر دعوت دین کا فریضہ انجام دیا جاتا رہا ہے، مسلم حکومتوں کا فریضہ ہے کہ وہ طاقت کی لاٹھی استعمال کرکے معاشرے میں نیکیوں کو رواج دیں اور برائیوں کو روکیں، شریعت سراپا رحمت ہے،شارع تعالیٰ رحمن و رحیم ہیں اور جن پر شریعت نازل کی گئی ہے، وہ رحمۃ للعالمینﷺ ہیں، اس کے باوجود جرائم پر سرزنش کرنے کا حکم دیا گیا اور بعض جرائم پر نہایت سخت سزائیں مقرر کی گئیں، یہ اسی لئے کہ بعض دفعہ نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے روکنے کے لئے طاقت وقوت کا استعمال بھی مطلوب ہوتا ہے، مساجد میں جمعہ وعیدین کے خطبوں کا اہتمام اور وقتاً فوقتاً لوگوں سے اصلاح و تربیت کی گفتگو کا مقصد بھی دعوتِ دین ہی ہے، خانقاہیں اور مدارس شب و روز جس کام میں مشغول ہیں، وہ بھی دعوت ہے، اس کے علاوہ انفرادی اور اجتماعی ملاقاتوں کے ذریعے لوگوں کو متوجہ کرنا بھی دعوت کا ایک موثر طریقہ ہے اور یہ بھی حدیث سے ثابت ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنی دعوت کا آغاز ہی اسی انداز پر فرمایا، جب حکم دیا گیا کہ آپ اپنے خاندان کے لوگوں پر حق کی دعوت پیش فرمائیں: تو آپ نے بنو ہاشم اور بنوعبدالمطلب کو جمع فرمایا، ان کے لئے کھانے کا بھی نظم کیا اور پھر ان پر توحید کی دعوت پیش فرمائی، بلکہ بعض سیرت نگاروں کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے دو دفعہ ایسا اجتماع منعقد کیا، پھر جب آپ کو عمومی طور پر دعوت دین کا حکم دیا گیا تو آپ نے صفا کی چوٹی پر چڑھ کر تمام اہل مکہ کو اس پہاڑ کے دامن میں جمع فرمایا اور ان سے خطاب کیا، فتح مکہ اور حجۃ الوداع کے موقع سے آپ نے جو اثر انگیز خطبات دیے ہیں، وہ حدیث و سیرت کی کتابوں میں موجود ہیں۔