• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک مسبوق کی اقتداء میں دوسرے شخص کی نماز کا حکم

تفہیم المسائل

سوال: زید مسجد میں داخل ہوا اور امام جماعت سے فارغ ہو کر اذکار میں مشغول تھا اور ایک مسبوق اپنی نماز مکمل کرنے کے لیے کھڑا ہوا ،اب زید اس کی اقتداء میں اپنی نماز پڑھنے کھڑا ہوا،کیا زید کا یہ عمل درست ہے اور کیا احادیث میں اس کی مثال ملتی ہے ، کیا ائمۂ اربعہ میں سے کسی کا مذہب ہے، تفصیل سے ارشاد فرمائیں۔(علامہ مدثر حسین ، امریکا )

جواب: مسبوق اپنی بقیہ رکعت یا رکعات کی ادائیگی میں منفرد کے حکم میں ہے ۔ بقیہ رکعت میں قیام کی ترتیب اس طرح ہوگی کہ پہلے فاتحہ کے بعد قراءت والی رکعت اور بعد میں صرف سورۂ فاتحہ پڑھی جانے والی رکعت پڑھے گا۔ جتنی رکعتیں اما م کے ساتھ پڑھ چکا ہے، ان کے حساب سے قعدہ کرے یعنی ان رکعتوں کے حساب سے جو دوسری ہو، اُس میں پہلا قعدہ کرے گا اورجو تیسری رکعت ہو اور نماز تین رکعت والی ہو تو اس میں اخیر قعدہ کرے گا،اگر بعد والی رکعات میں کوئی سہو واقع ہوجائے تو اُسے سجدۂ سہو بھی کرنا ضروری ہے۔ جماعت ختم ہوجانے کے بعد آنے والا شخص اور مسبوق کسی طرح اپنی نماز کے ارکان میں متحد نہیں ہوسکتے، لہٰذا بعد میں آنے والا اپنی نماز علیحدہ اداکرے گا۔

مسبوق کی اقتداء میں اقتداء کرنے والوں کی نماز درست نہ ہوگی ، علامہ نظام الدین ؒ لکھتے ہیں:’’ مسبوق اپنی نماز پڑھنے میں منفرد کے حکم میں ہے، سوائے چار صورتوں کے، اُن میں سے ایک صورت یہ ہے : نہ اُسے کسی کے ساتھ اقتداء جائز ہے ،نہ اُس کے ساتھ کسی کو اقتداء جائز ہے، اگر مسبوق نے مسبوق کی اقتدا ءکی ،امام کی نماز فاسد نہیں ہوگی ، مسبوق کی نماز فاسد ہوگی ، خواہ قراءت کرے یا نہ کرے ، ’’البحرالرائق ‘‘ میں اسی طرح ہے ، (فتاویٰ عالمگیری ،جلد1)‘‘۔

ڈاکٹر وھبہ زحیلی لکھتے ہیں: ’’ اور مسبوق منفرد کی مثل ہے ، سوائے چار صورتوں کے ، ان میں سے ایک صورت یہ ہے: نہ اُسے کسی کی اقتدا ءکرنا جائز ہے اور نہ کسی اورکو اُس کی اقتدا ءکرنا جائز ہے ،(اَلفِقْہُ الاِسلَامِی وَأَدِلّتہٗ ، جلد2)‘‘۔فقۂ مالکی کے مطابق بعد میں آنے والے شخص کے لیے مسبوق کی اقتداء کرنا جائز نہیں ہے ، چنانچہ ’’الفواکہ الدوّانی ‘‘ میں ہے : ’ اس لیے کہ مسبوق حکماً مقتدی ہے اور مقتدی امام نہیں ہوسکتا ،(اَلْفَوَاکِہُ الدَّوَانِی،جلد1)‘‘۔ جب کہ فقہائے شافعیہ اور بعض حنابلہ کے نزدیک مسبوق کی اقتدا کرنا جائز ہے ،اس لیے کہ وہ اپنی نماز میں منفرد کے حکم میں ہیں۔

علامہ عبدالرحمٰن جزری اس مسئلے کی بابت مذاہب اربعہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ترجمہ: فقہائے مالکیہ کہتے ہیں: جو شخص کسی ایسے مسبوق کی اقتداء کرے کہ جس نے اپنے امام کے ساتھ ایک رکعت پالی ہو تواس کی اقتداء کرنےوالے کی نماز باطل ہے ،خواہ مقتدی بھی اُسی کے مثل مسبو ق ہو یانہ ہو، البتہ اگرامام کے سلام پھیرنے کے بعد ایک مسبوق دوسرے مسبوق کی اقتدا کی نیت کے بغیر صرف نقل کرے ،تو اُس کی نماز صحیح ہے، اِسی طرح اگر مسبوق نے امام کے ساتھ مکمل رکعت نہ پائی ہو مثلاً وہ امام کے ساتھ تَشَہُّدا خیر میں شریک ہوا ہو ،تو اس کی اقتداء کرنا صحیح ہے ،کیونکہ وہ منفرد ہے اور اس کے لیے اقتداء کا حکم ثابت نہیں ہوا ہے اور فقہائے احناف نے کہا ہے کہ مسبوق کی اقتداء صحیح نہیں ہے، خواہ اس نے امام کے ساتھ ایک رکعت پائی ہو یا اس سے کم، پس اگر دو آدمی امام کی اقتداء کریں اور دونوں مسبوق ہوں اور امام کے سلام پھیرنے کے بعد ان میں سے ایک دوسرے کی اقتداء کی نیت کرے تو مقتدی کی نماز باطل ہوجائے گی، البتہ اگر ان میں سے ایک دوسرے کی اقتداء کی نیت کے بغیر متابعت کرے تو دونوں کی نمازیں صحیح ہیں، کیونکہ ان کی نمازیں دونوں کے ساتھ مرتبط ہیں اور فقہائے شافعیہ نے کہا ہے کہ مقتدی جب تک اقتداء کی حالت میں ہو تو اس کی اقتداء صحیح نہیں ہے، پس اگر امام کے سلام پھیرنے کے بعد یا امام کی جماعت سے مقتدی کے علیحدہ ہونے کی نیت کرنے کے بعد کوئی شخص اس کی اقتداء کرے ،تو اس کی اقتداء صحیح ہے، شافعیہ کے نزدیک مقتدی کے لیے نیت کرکے امام کی نماز سے علیحدہ ہونا جائز ہے، جمعہ کی نماز کے علاوہ نماز وں میں جائز ہے، جبکہ جمعہ کی نماز میں اگر وہ علیحدہ ہوگیا تو اس کی اقتداء صحیح نہیں ہے۔ 

حنابلہ نے کہا ہے کہ مقتدی جب تک اقتدا ءکی حالت میں ہو،اُس کی اقتداء جائز نہیں ہے،پس اگراس کاامام سلام پھیردے اوروہ مسبوق ہو تو اس جیسے مسبوق کے لیے نمازِ جمعہ کے علاوہ میں اس کی اقتدا ءکرنا صحیح ہے، البتہ نمازِ جمعہ میں مسبوق کے لیے اپنے جیسے مسبوق کی اقتدا ءصحیح نہیں ہے،(اَلْفِقْہ عَلَی الْمَذَاہِب الاَربَعَۃ، جلد1)‘‘۔

خلاصۂ کلام یہ کہ اَحناف کے نزدیک کسی صورت میں مسبوق کی اقتداء جائز نہیں ہے ، البتہ اگر ایک مسبوق نیت اقتدا ءکے بغیر اپنی یاد داشت کے لیے دوسرے مسبوق کی پیروی کرتاہے ،تو اس میں حرج نہیں ہے۔ فقہائے مالکیہ کے نزدیک اس مسئلے کی دو صورتیں ہیں: پہلی صورت میں جو شخص کسی ایسے مسبوق کی اقتداءکرے کہ جس نے اپنے امام کے ساتھ ایک رکعت پالی ہو تواس کی اقتداء کرنےوالے کی نماز باطل ہے ،خواہ مقتدی بھی اُسی کے مثل مسبو ق ہو یانہ ہو،البتہ اگرامام کے سلام پھیرنے کے بعد ایک مسبوق دوسرے مسبوق کی اقتداء کی نیت کے بغیر صرف نقل کرے ،تو اُس کی نماز صحیح ہے۔

دوسری صورت یہ ہے کہ اگر مسبوق نے امام کے ساتھ مکمل رکعت نہ پائی ہو، مثلاً وہ امام کے ساتھ تَشَہُّدا خیر میں شریک ہوا ہو ،تو اس کی اقتداء کرنا صحیح ہے ،کیونکہ وہ منفرد ہے اور اس کے لیے اقتدا ءکا حکم ثابت نہیں ہوا ہے۔ شوافع اور حنابلہ کے نزدیک مسبوق جب تک امام کی اقتداء میں ہے، تب تک اس کی اقتداء جائز نہیں ہے ،البتہ وہ امام کی اقتداء سے نکلنے کی نیت کرلے تو ایسی نیت جائز ہے اور اس صورت میں اس کی اقتداء جائز ہے ، البتہ جمعہ کی نماز میں ایساکرنا جائز نہیں ہے ،کیونکہ جمعہ کے لیے کم ازکم تین مقتدی ہونا ضروری ہیں اور اس کے لیے خطبہ واجب ہے۔