آپ کے مسائل اور اُن کا حل
سوال: میں اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے کثرت سے درود شریف اور ساتھ روزانہ 500 مرتبہ لاحول ولا قوۃ الاّ بالله پڑھتا ہوں ،لیکن آج ایک بندے نے دل میں شک ڈال دیا کہ ان اعمال کو کرنے کے لیے اجازت ضروری ہے تو یہ بات صحیح ہے یا غلط؟
جواب: کسی وظیفے یا عمل کے پڑھنے کے لیے کسی شیخ کی اجازت شرعاً لازم یا ضروری نہیں، بدونِ اذن بھی مستند وظائف اور اعمال درست ہیں، البتہ بسااوقات پڑھنے والے کو ان اعمال ووظائف سے متعلق بزرگوں کے تجربات کی روشنی میں اپنے احوال کے لیے اوراد کی مناسب تشخیص، مفیدہدایات، فیض کا حصول اورکلمات وغیرہ کی اصلاح مقصود ہوتی ہے،اس لیے بعض اعمال ووظائف میں بزرگوں سے راہ نمائی لی جاتی ہے،ا سی کو ’’اذن‘‘ اور’’ا جازت‘‘ کہتے ہیں ۔ صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کسی اللہ والے کے مشورےسے ذکر کریں گے تو ان شاءاللہ زیادہ فائدہ ہوگا، تاہم بغیر مشورے کے پڑھنا بھی نفع سے خالی نہیں۔ اشرف العملیات میں ہے کہ عملیات دو قسم کے ہیں:
ایک تو وہ جن کا اثر دنیاوی ضرورتوں کا پورا ہونا ہے۔ اس میں اجازت کا مقصد تقویتِ خیال (یعنی خیال کو مضبوط کرنا) ہے،کیوں کہ رواج اور عادت کی وجہ سے پڑھنے والے کو یہ اطمینان ہوجاتا ہے کہ اجازت کے بعد خوب اثر ہوگا ، اثر ہونے کا دارو مدار قوتِ خیال پر ہے اور اجازت وغیرہ قوتِ خیال کا ذریعہ ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ اجازت دینے والے کی توجہ بھی اس کی طرف ہوجاتی ہے، اس سے اس کے خیال کے ساتھ ایک دوسرا خیال مل جاتا ہے جس سے عمل پڑھنے والے کے خیال کو تقویت پہنچتی ہے۔
دوسرے وہ اعمال جن کا ثمرہ اخروی ہوتا ہے (یعنی آخرت میں ثواب ہوگا) سو ایسے اعمال میں اجازت کی کوئی ضرورت نہیں، ثواب اور اللہ کا قرب ہر حالت میں یکساں ہوگا اور اگر اسے اجازتِ حدیث وغیرہ پر قیاس کیا جائے تو صحیح نہیں، کیوں کہ وہاں اجازت سے سند کی روایت مقصود ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر شخص روایت کا اہل نہیں ہوتا۔ اسی طرح میرا خیال ہے کہ ہر شخص وعظ کا بھی اہل نہیں جس کی حالت پر اطمینان ہوجائے کہ وہ گڑبڑ نہیں کرے گا ،اسے اجازت دینا چاہیے۔
غرض اخروی اعمال میں اجازت کے کوئی معنی نہیں بلا اجازت بھی (ان اعمال کے کرنے سے) ثواب میں کمی نہ ہوگی۔ البتہ ماثور (یعنی مسنون) دعاؤں میں الفاظ واعراب کی تصحیح بھی مقصود ہوتی ہے سو جسے استعداد نہ ہو (جو صحیح نہ پڑھ سکتا ہو) اس کے لیے اجازت میں یہ مصلحت ہے کہ استاد صحیح کرادے گا، اور جسے اتنی استعداد ہو کہ وہ خود صحیح پڑھ سکتا ہو،اسے اس کی بھی ضرورت نہیں۔