• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منشور میں کیا رکھا ہے کہ مقبول سیاست ایک ہی بیانیہ کی مرہون منت ہے ۔ 27دسمبر، کل بروز بدھ بینظیر صاحبہ کی برسی کے موقع پر پیپلز پارٹی نے جلسہ عام کا بندوبست کر رکھا تھا۔ اسی مناسبت سے نوجوان کرشماتی لیڈر بلاول بھٹو نے حسب معمول شعلہ بیان خطاب فرمایا تو 8فروری کے انتخابات کیلئے 10نکاتی ایجنڈا دیا۔ قطع نظر کہ منشور انقلابی تھا یا رجعت پسندانہ، منشور بارے میری نپی تلی رائے اہل دانش، سیاستدانوں سے مختلف ہے عوام کومرعوب کرنے، تنقید سے بچنے کیلئے، اپنی تالیف قلب کیلئے قائدین اور سیاسی جماعتیں خود فریبی کا ساماں پیدا کررہی ہیں، عملاً عوام سے دھوکہ دہی کر رہی ہیں۔ اگرچہ، اخلاص کیساتھ عوام کو اپنی طرف متوجہ کرنا مقصد ہے۔

بھٹو صاحب کا روٹی کپڑا مکان یا شہباز شریف کا چھ ماہ میں لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ یا عمران خان کی 1کروڑ نوکریاں، 50لاکھ گھر! پہلے سال ہی 8000 ارب ٹیکس اکٹھا کرنا، سب کچھ خانہ پُری کیلئے ضروری ہے۔ کوئی ایک بھی نہیں جو اپنے بلند بانگ دعوئوں کے قریب بھٹک پایا ہو اور نہ ہی وعدے پورے نہ کرنا کسی کی سیاست کا کچھ بگاڑ پایا۔ وطن عزیز ایک بدترین دور سے گزر رہا ہے، بد اعتمادی و بے اعتباری کا راج ہے۔ مایوسی ناامیدی چار سُوپھیلی ہے۔ ریاست بنفس نفیس آئین وقانون کی دھجیاں اڑانے میں مستعد ہے۔ حکمراں دلجمعی اور یکسوئی سے ماؤرائے آئین و قانون حکومت چلا رہے ہیں، درج بالا صورتحال، ریاست کو بھیانک انجام سے دوچار رکھنے کیلئے ایک جامع منصوبہ ہے۔ الیکشن کی سرگرمی سر پر، سیاست دسمبر / جنوری کی ماند یخ بستہ، سیاسی جماعتیں زبردستی متحرک نظر آنے کیلئے مقدور بھر کوشش میں ہیں۔ طاری سیاسی ماحول الیکشن کی گہما گہمی سے مطابقت نہیں رکھتا۔ تین بڑی جماعتوں میں پیپلز پارٹی بہرحال عوام کیساتھ رابطوں میں زیادہ متحرک ہے۔ کم و بیش تمام سیاسی جماعتیں سیاسی مہم چلانے کی بجائے تقریروں، بیانات اور میڈیا میں فروعی بحثوں میں الجھی ہیں۔ تحریک انصاف اس لحاظ سے خوش قسمت کہ اسکی انتخابی مہم ریاست خود چلا رہی ہے۔ ریاست کی احمقانہ حکمت عملی پر انصافی سوشل میڈیا نے چار چاند لگا رکھے ہیں ۔

مسلم لیگ ن کو ہے شاید’’اللہ ‘‘ پر بھروسہ، جسے’’اللہ‘‘ رکھے تو اس کو بھلا کون چکھے۔ ن لیگ اسی خوش فہمی یا ’’بد گمانی‘‘ میں، ہفتوں سے امیدواروں کی فہرستیں ترتیب دینے میں چاق چوبند ہے۔ شاید اگلے چند ہفتے مزید خرچ کرنا پڑیں۔ عوامی رابطہ اور میڈیا ہینڈلنگ تب تک کیلئے ’’سوکھنا‘‘ ڈال رکھا ہے۔ میڈیا جو ایک موثر ہتھیار ہے، سیاست کیلئے آبِ حیات، عرصہ سے دلچسپی محدود ہے۔ موثر سوشل میڈیا کی مد میں دہائیوں سے ذہنی طور پر اپنی شکست تسلیم کر لی ہے۔ سودوزیاں سمجھنے کی اہلیت نہیں یا راسخ حکمت عملی زیر غور ہی نہیں۔ دوسری طرف ریاستی سطح پر الیکشن کے انعقاد کے بارے میں شکوک شبہات پھیلانے کی ایک منظم مہم روبہ عمل ہے ۔ وطنی طول و عرض میں بے موقع کی بحث جاری ہے، الیکشن ہوپائیں گے یا نہیں ؟ کنفیوژن نے اعصاب شَل کر رکھے ہیں۔ بظاہر الیکشن کو یقینی بنانے میں ریاستی اقدامات میں حتمی سنجیدگی اور جوش و خروش بھی ناپید ہے ۔ علاوہ ازیں ، اسٹیبلشمنٹ اس وقت سیاہ و سپید کی مالک ، ریاستی امور کُلی طور اسکے رحم و کرم پرہیں۔ عمران سے نبٹنے کیلئے درجنوں ہنر آزماچکی،انواع واقسام کی تدابیر بیکار گئیں یا الٹی پڑیں۔ عمران کی سیاست کو جلا بخشتی رہیں۔ اسکے ماننے چاہنے والوں کو حیرت انگیزمستحکم کیا ۔ اداروں کیخلاف نفرت اور غصہ کو فروغ دیا ۔ وطن دشمن بونس میں اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔

شہباز شریف کا کل ہی کا بیان کہ اسحاق ڈار کی زیر سرپرستی منشور کمیٹی سینہ سپر ہے۔ ہمارا منشور جلد منظر عام پر آنے کو ہے ۔ شہباز صاحب کی سیاسی تخیل ِپرواز ، ردعمل تک محدود ہے ۔ بلاول نے منشور کیا دیا ، مسلم لیگ ن میں’’تھر تھلی ‘‘ مچ گئی ۔ ہائے ! ایسی سیاسی فہم و فراست اور تدبر پر’’رشک‘‘آتا ہے ۔پچھلی دفعہ جب 17 جولائی 2018کو منشور دیا تھا تو مقصد منشور سے زیادہ نواز شریف کے بیانیہ سے چھٹکارا حاصل کرنا تھا ۔ منشور ٹوپی ڈرامہ ، ملفوف’’خدمت کو ووٹ دو‘‘ کے ذریعے جنرل باجوہ کی خوشنودی تھی ۔ سیاسی جماعتوں میں مقابلہ منشور جاری ہے جبکہ تحریک انصاف کا’’مفتا‘‘لگ گیا ہے کہ اسکو منشور والا ٹوپی ڈرامہ نہیں کرنا پڑ رہا ۔ عملی سیاست میری فیلڈ نہیں ہے ۔ حیرت ان پر جو عملی سیاست میں ملوث ، لیکن سیاست کے بنیادی حقائق سے بے خبر ہیں ۔

یادش بخیر ، 1970ءکے الیکشن میں ، سوائے بھٹو صاحب اور شیخ مجیب الرحمن ، کسی اور سیاسی جماعت نے منشور نہیں دیا تھا۔ بھٹو صاحب نے ہر شہر ی کیلئے روٹی کپڑا مکان کا وعدہ کیا ۔ بھٹو صاحب کے ساڑھے چار سال کے دورِ اقتدار میں وعدہ وفاء تو نہ ہو سکا ،انکی مقبولیت پر کوئی اثر نہ ہوا کہ منشور وجہ نزاع نہیں بنا ۔ مخالفین کا بھٹو کو طعنہ بھی یہی کہ بھٹو نے کھانے کو گولی ، پہننے کو کفن اور رہنے کو قبر دی ہے ۔ دوسری مثال ق لیگ ، 2002 میں بغیر منشوراور وعدےکے اچانک آبراجمان ہوئی ۔ بغیر منشور معیشت وروپیہ مستحکم ، ملک میں غربت کم، بے شمار ترقیاتی منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچائے۔ 2008میں بے آبرو ہو کر کوچہ سیاست سے باہر ، کچھ کام نہ آیا ۔ 2018، عمران خان وعدوں کی ایک لمبی فہرست لیکر اقتدار ہتھیانے میں کامیاب ہوئے ۔ منشور ناکام ، بد ترین طرز حکمرانی ، کرپشن کے ریکارڈ ، کیا کچھ نہیں ۔ 10 اپریل کے بعد جب پہلی دفعہ سیاسی مقبولیت سے متعارف ہوئے تو اسکی وجہ منشور نہیں فقط ایک بیانیہ تھا ۔ نواز شریف بغیر کسی واضح منشور کے 24نومبر 2007ءتا دسمبر 2021 ءزندگی کی سب سے مضبوط سیاست اپنے نام کر چکے تھے ۔ اور کونسی دلیل چاہیے کہ سب کی مقبولیت میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ مشترک تھا ۔ دوسری رائے ، سب کی غیر مقبولیت کی وجہ ایک ہی ، پرویز الہیٰ سے لیکر عمران خان تا نواز شریف جو جو بھی، ادھر اسٹیبلشمنٹ کے مہرہ کا تاثر عام ہوا ،مقبولیت کوسوں دور بھاگ گئی ۔ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ پر سات خون معاف ، کوئی حربہ ، کوئی الزام کا رگر نہیں رہتا ، ایسے ہی جیسے 2014ءسے 2021ءتک نوازشریف پر کونسا ظلم جو نہ ڈھایا گیا ، آفرین ! عوام الناس سننے کو تیار نہ تھے ۔

خواتین و حضرات! خاطر جمع رکھیں منشور میں کچھ نہیں رکھا ۔ عوام نے نہ انکے وعدوں کو خاطر میں لانا ہے نہ انہوں نے پورے کرنے ہیں۔ سب کچھ بیانیہ میں ہی رکھا ہے کہ بیانیہ ہی چلتا ہے ۔ اگر 8 فروری کا الیکشن ہو پاتا ہے اور تحریک انصاف دامے درمے سخنے موجود رہی تو صورتحال کچھ یوں رہے گی۔ ساری سیاسی جماعتوں کے پاس منشور ہوگا اور بیانیہ سے تہی دامن ہوں گی۔ جبکہ عمران خان کے پاس صرف اور صرف بیانیہ ہو گا۔ سیاست اور مقبولیت عمران خان کے قبضہ میں اور حکومت اور قبولیت مسلم لیگ کے پاس ۔ کیا سود و زیاں والا سودا رہنا ہے۔

تازہ ترین