• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بالآخر فقط آئینی نام کے ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ میں نوبت عشروں سے مسلط نظام بد (مافیا راج) اور ’’آئین و قانون کے مکمل و یکساں اطلاق و نفاذ‘‘ کے درمیان طویل سیاسی کشمکش، فیصلہ کن معرکہ آرائی میں تبدیل ہوگئی۔ الیکشن ۔24 جیسا بھی ہو، اللّٰہ کرے ممکنہ حد تک شفاف یا وائے بدنصیبی آلودہ نظر آ رہا ہے، ایسے کہ الیکشن صرف پولنگ ڈے کا نام نہیں۔ 8فروری کو ہونے والے انتخاب کے شیڈول کے اعلان کے بعد امیدواروں کے کاغذات نامزدگی جمع کرانے، اعتراضات اور جانچ پڑتال کا دوسرا مرحلہ جس قدر آلودہ ثابت ہوا اور ہو رہا ہے اس کی ملکی تو کیا ترقی پذیر جمہوریتوں کی انتخابی تاریخ میں بھی کوئی مثال نہیں ملتی۔متذکرہ ملکی انتخابی آلودہ بندوبست کے متوازی الیکشن کی بڑی بلکہ ناگزیر روایتی انتخابی مہم تو مکمل غائب ہے کہ اس کی جگہ پہلا مرحلہ عوام رابطے کی بجائے ثابت شدہ ملکی سب سے پاپولر جماعت پی ٹی آئی کو پہلے ہی مرحلے کی تمام قانونی ضرورتیں بمطابق پوری کرنے کے لئے جماعتی امیدواروں، رہنمائوں اور کارکنوں کو جس تگ و دو سے گرفتاری کا خطرہ مول لے کر مکمل واضح الیکشن کمیشن اور عملے کے مکمل جانبدار رویے، انتظامیہ کی فسطائیت کی حد تک رکاوٹوں اور حربوں و ہتھکنڈوں سے نپٹنا پڑ رہا ہے، ملک گیر سطح پر مقابل دونوں روایتی بڑی پارلیمانی جماعتیں اتنی آسانی اور نگرانی انتظامی اشیرباد سے عوام رابطے کے متبادل ذرائع پر اکتفا کئے دور دور سے عوام اور ریاستی اداروں کو یہ یقین دلانے میں پورا زور لگا رہی ہیں پی ٹی آئی تقریباً ختم، اصل قیادت مائنس اور ’’اک واری فیر‘‘ (اقتدار کی ایک اور باری ہماری) اگلا وزیر اعظم بلاول۔ اگلی حکومت کس کی بنے گی؟کون بنائے گا؟ ووٹرز یا انجینئرز؟۔ رائے عامہ کی تشکیل ہو چکی ،عوام نے اپنا اپنا فیصلہ لکھ کر محفوظ کرلیا، لیکن اولیگارکی (روایتی مافیا راج) کی مختلف النوع قوتیں، عوامی فیصلے کے بالکل صحیح (کہ یہ اتنا واضح ہے) اندازے سے اپنے اپنے ایکشن لے رہی ہیں تاہم عوام کی بھاری اکثریت میں پیدا کئے گئے خوف سے جامد کر دیا گیا ہے، ان کا ہدف (پسندیدہ امیدوار کا انتخاب) کا حصول کے لئے دلائل و ترغیبات کا کھلا اظہار، اپنے امیدواروں کی اجتماعی تائید و وحمایت اور ووٹرز میں جا کر انہیں اپنے حق میں فیصلہ (ووٹ ڈالنے) کرنے کے مواقع اور سرگرمیوں سے جبراً محرومی کے بعد بڑا چیلنج یہ بن گیا ہے کہ وہ ڈی ڈے (پولنگ ڈے) پربغیر کسی رکاوٹ، حربے کے اپنا ووٹ پولنگ اسٹیشن پر جا کر حق رائے دہی استعمال کرلیں۔ یعنی عدالتی چیمبر میں جا کر اپنا محفوظ فیصلہ سنا دیں، لیکن آگ کا ایک اور دریا ہے، جس سے گزر کر عوامی عدالت تک پہنچنا ہے جو دھند کے موسم میں خواص و عوام کو نظر آگیا۔ اب تو خواص (اولیگارکی) عوام سے زیادہ خوف میں مبتلا دکھائی دے رہی ہے۔ اولیگارکی کے مختلف مزاج و رواج کی حامل موروثی سیاسی قوتیں اور نظام بد کے بینی فشریز اپنے اپنے ذاتی وگروہی مشترکہ بنیاد، نظام بد کے بینی فشریز اب عوام کے لئے گلے پڑے لیکن اپنی بقاو شفا و دفاع کے مشترکہ ضامن (اسٹیٹس کو) کے متحدہ دفاع کے قابل نہیں رہے، جبکہ قوت اخوت عوام ’’سیاسی منظر پر اپنی قوت اپنے فیصلے اپنا استقلال ہر حالت میں دکھانے، بنانے اور جتلانے کے قابل ہوگیا ہے نہ صرف قابل بلکہ اسے قائم دائم رکھنے اور بڑھانے اور مزاحمت کے بھی ۔ یہ ہی تو اولیگارکی (روایتی مافیا راج کےلئے وہ مسئلہ ہے جس پر اولیگارکی کی آخری کامیابی پی ڈی ایم حکومت کی تشکیل ہوئی نگراں انتظامیہ معاون ریاستی ووٹرز و قارئین کرام! الیکشن کا موسم ہے، خواہ دھند واسموگ میں لپٹا، ذہن نشین رہے کہ انعقاد انتخاب کے لئے جو کچھ ریاستی اداروں اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے اچھا برا ہواہے یہ نہ بھولا جائے کہ انتخاب کے انعقاد کی آئینی ذمے دار نگراں حکومت پی ڈی ایم اور ان کے اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض (جو اب ن لیگ کے ٹکٹ ہولڈر ہیں) کے مشترکہ اتفاق سے وجود میں آئی ہے، جس میں 16 ماہی شہباز حکومت کے تین قابل اعتماد سرکاری چھاپ کے کارندے بھی دو روز قبل تک شامل چلے آ رہے تھے، جنہیں قانونی چیلنج کرنے کی قانونی مزاحمت کرتے عدالتی حکم پر ہی الیکشن سے فقط چھ ہفتے قبل فارغ کیاگیا ہے جبکہ خود پی ڈی ایم اورینٹڈ نگراںحکومت مقررہ مدت کے بعد بھی اقتدار میں رہ کر اصلاً غیر آئینی ہوگئی ہے لیکن قوم نے اپنے پیسوں سے بنی اور چلتی حکومت کو سیاسی گند صاف کرنے اور سیاسی و معاشی بحران ختم کرنے کے لئے متلی کی حالت میں بھی ہضم کیا ہوا ہے۔ ملک گیر سطح پر فسطائیت ننگا اپنا ناچ دکھا رہی ہے۔ بات اب چادر اور چاردیواری میں اور عدالتی پیشیوں پر پیشیوں کی شکل میں پوری قوم کی انتہائی محترم بیبیوں کی جو رسوائی اولیگارکی کی وردی بردار پولیس اور انتظامی کارندے کر رہے ہیں اس میں بے نقابی والی بات نہیں دانستہ اپنا آپ دکھایا جا رہا ہے۔ فسطائیت نے جیلوں، عدالتوں اور وکلا کے چیمبر ز کا رخ کرلیا ہے، کون سے ضلع میں کیا کچھ نہیں ہو رہا ۔ ناچیز لاہور کا باسی ہے، شہباز شریف کو یاد دلانا ضروری اور بروقت جانتا ہوں کہ آپ نے الیکشن۔18 کی انتخابی مہم میں جاری و مسلط نظام کو گلاسڑا نظام قرار دے کر ببانگ دہل جتلایا تھا کہ یہ نظام نہیں چلے گا، جناب یہ تو آپ کی انتظامی قیادت میں حکومت اکھاڑ مہم جوئی کے بعد اپنی انتہا پر نہیں پہنچا؟ چلیں، قوم نے بوجہ ہضم کیا۔ آپ کی ناجائز خواہشات پر آپ اور آپ کی موروثی قیادت کو پوتر کرنے کے لئے کیا کچھ نہیں ہوا، آپ کی اور راجہ ریاض کی خالق نگراں حکومت میں جو کچھ سابق وزیر خارجہ جناب شاہ محمود اور بیرسٹر لطیف کھوسہ فیملی کے ساتھ ہو رہا اور جاری ہے اس میں الیکشن گلے سڑے نظام کی بقا کے لئے منعقد کیا جا رہا ہے، یا عوام کو آئینی اجازت ہے کہ وہ اپنی عدالت کا فیصلہ سنا دیں اور ڈی ڈے میں کوئی قیامت نہ ٹوٹے، آپ سیاسی شاعری بہت پسند کرتے ہیں اور آپ نے انتخابی مہم میں کلام جالب سے خوب تڑکا لگایا۔ سنیں راحت اندوری کا ایک شعر بمطابق صورت حال ؎

اندر کا زہر گھل گیا، دُھل کے آگئے

جتنے شریف لوگ تھے سب کُھل کے آگئے

تازہ ترین